آپ بیتی
گذشتہ دنوں اتفاق ہوا کہ کراچی سے حیدر آباد تک کا سفر بذریعہ بس کیا جائے. بس کے اڈے پہ پہنچی تو سہیل بس سروس کی گاڑی روانگی کے لئے تیار کھڑی تھی، سو سوار ہو گئے. داخل ہوئے تو کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ٹیلی ویژن بس میں نصب ہے. سوچا چلو کو ئی ڈھنگ کی چیز دیکھنے کو ملے گی، سیٹ پہ بیٹھی اور نظرو ں نے جب ٹیلی ویژن کا طواف کیا تو دل دھک رہ گیا. آنکھیں جہاںتھیں وہاں تھم گئیں، اور دوسرے ہی لمحے زمین پر گڑ گئی اور پھر اٹھنے کی جرٰات نہ کر سکیں. سکت ہی نہیںتھی. اٹھتی بھی تو کیسے اٹھتی، بس ارد گرد کے لوگوں کے چہروں میں سے کسی انسان، کسی مسلمان کو تلاشتی رہیں، لیکن داڑھی والے چہروں اور نقاب لگے چہروں میں سے مجھ سمیت کوئی ایسا نہ تھا کہ جو کھڑا ہوتا اور گاڑی والے کو کہتا " یہ کیا بے حیائی پھیلا رہے ہو، بس میں سفر کرنے والوں کی ایمان کیو ں دائو پر لگا ریے ہوں??" سفر چلتا رہا، نظریں تلاشتی رہیں اور با لآخر سفر ختم ہو گیا. لیکن یہ شرمندگی اب دامن گیر ہے کہ میںنے نمبر نوٹ کر کے شکایت تو کر دی لیکن کیا میں اس وقت کچھ کرتی تو کیا اچھا نہ ہوتا? کیا کوئی بھی ایسا انسان، ایسا مرد ، ایسا مسلم نہیںتھا کہ جو اس کے خلاف احتجاج کرتا??????? اللہ مجھے معاف کرے...
اسلامی انقلاب آ کے رہے گا
Bookmarks