Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 20

Thread: ہدایت کیا ہے اور ہدایت کس کو اور کیسے ملتی ہ&#

  1. #1
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default ہدایت کیا ہے اور ہدایت کس کو اور کیسے ملتی ہ&#

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
    معزز قارئین کرام ...ہم نے ایک تھریڈ میں ایک سلسلہ "کافروں کے مال ومتاع اور ترقیوں کا راز" کے نام سے شروع کیا ہوا تھا ....جو کہ طوالت کی وجہ سے ہم اُسی سلسلہ کی کڑی "ہدایت کیا ہے اور ہدایت کس کو اور کیسے ملتی ہے" کے نام سے شروع کررہے ہیں ...تمام قارئین کرام سے توجہ سے مطالعہ کی درخواست ہے.جزاک اللہ

    معزز قارئین کرام.... ہم لوگوں کا انفرادی مسائل سے لے کر اجتماعی مسائل کی دلدل میں اترتے جانے کا سبب ہی یہ ہے کہ ہم نے اپنے رب کے عظیم کلام پاک سے رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے انسانی (ناقص)عقل سے تیار کردہ قاعدے ،قانون،ضابطے اورنظام سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوششیں کیں ۔۔۔۔پھرہمارے مسائل بد سے بد ترکیوں نہ ہوتے ؟؟؟
    یہاں تو” نیم حکیم خطرہ جان“ والا معاملہ بھی نہیں کہہ سکتے ۔
    جس رب نے اس کائنات کی تخلیق کی۔۔۔۔ یہ زمین اور آسمان بنائے ۔۔۔۔اور جس رب نے انسان کی تخلیق کی۔
    سوچیے تو سہی!”خالق “سے زیادہ مخلوق کے مسائل سے کون واقف ہوسکتا ہے ؟؟؟

    مسائل کی دلدل میں اترنے میں یہ ہماری سب سے بڑی بھول تھی کہ ہم نے خالق کائنات کے بتائے ہوئے اصول اور ضابطے چھوڑ کر ناقص انسانی عقل کے بنائے ہوئے اصول اورضابطوں کو اپنایا۔
    انشاءاللہ تعالیٰ ہم اس حصہ میں ایک اور اہم ترین نقطہ کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔۔بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اپنے پورے سلسلہ کے سب سے اہم نقطہ کی وضاحت کرنا چاہیں گے ۔
    آپ تمام دوستوں سے خصوصی توجہ کی درخواست ہے ۔
    اللہ رب العزت جس نے انسانیت پر بے شمار احسانات فرمائے ۔۔۔۔اور خالق کائنات کا بہت بڑا احسان جس نے اس انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنے سب سے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو رحمتہ العالمین بنا کر بھیجا ۔۔۔۔رب کائنات کا احسان عظیم کہ پوری انسانیت کی رہنمائی کے لئے اپنا عظیم کلام پاک نازل فرمایا ۔۔۔۔اللہ رب العزت کا احسان عظیم کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک کی حفاظت فرمائی ۔۔۔۔اورالحمد اللہ آج ہم لوگوں کے پاس بغیر کسی ردو بدل کے لفظ بہ لفظ وہی قرآن پاک موجود ہے ۔
    لیکن میرے مسلمان بھائیوں دوستوں اور بزرگوں ! کبھی آپ نے سوچا کہ ہم مسلمانوں کے پاس اللہ رب العزت کی ان عظیم نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر ہم ان نعمتوں سے مستفید نہیں ہوئے اور ہم ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔۔۔۔ دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔۔۔۔مسائل میں الجھتے جارہے ہیں ۔۔ ۔ ۔ ذلت اور رسوائی میں گرفتار ہیں ۔۔۔۔ تواس کی کیا وجوہات ہیں؟؟؟
    لوگ قرآن اور سنت پر ایمان رکھتے ہیں۔۔۔اورعلماءکرام لوگوں کوقرآن اور سنت کی اہمیت اور افادیت بھی سمجھاتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ لیکن لوگ علماءکرام کی باتیں کیوں نہیں سمجھ پاتے ؟؟
    علماءکرام لوگوں کو قرآن اور سنت کی نافرمانی کرنے پر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجودکہ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر شدید عذابوں کی سزاﺅںکا اقرار کرتا ہے لیکن پھر بھی ان عذابوں سے ڈرنے کے بجائے لوگ نافرمانیاں کیوں کرتے ہیں ؟
    قرآن پاک نورہدایت ہے ۔۔۔۔لیکن اس نورہدایت کے ہوتے ہوئے بھی ہمارے دلوں میں ایمان کی روشنی کیوں نہیں ہوتی ؟ ہمارے دلوں میں قرآ ن اور سنت کا نور کیوں نہیں اترتا؟
    (آپ تمام دوستو ں سے توجہ کی درخواست ہے)
    معارف القرآن میں مفتی شفیع لکھتے ہیں کہ لفظ ”ہدایت“ کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔۔۔۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصل معنی ہیں ”کسی شخص کو منزل مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا “
    اور” ہدایت کرنا“ حقیقی معنی میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کا فعل ہے(یہ سب سے اہم بات ہے یاد رکھیے گا)۔۔۔جس کے مختلف درجات ہیں :
    ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ،جو کائنات و مخلوقات کے تمام اجسام جمادات ،نباتات ،حیوانات وغیرہ کو شامل ہے۔۔۔یہاں یہ خیال نہ کیجیے گا کہ ان بے جان اور بے شعور چیزوں کو ہدایت سے کیا کام ؟اس کی کئی مثالیں دیں جاسکتیں ہیں ۔ ۔۔لیکن ہم اختصار سے صرف ایک آیت مبارکہ پیش کررہے ہیں ۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ الخ بنی اسرائیل 44 پارہ 15
    (ترجمہ :تسبیح کرتے ہیں اس کی ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سب جو ان کے درمیان ہیں، بلکہ نہیں ہے کوئی چیز مگر وہ تسبیح کرتی ہے اس کی حمد و ثناءکرکے مگر نہیں سمجھتے تم ان کی تسبیح کو )

    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت،تسبیح ،تنریہ،تعظیم ،جلالت،،بزرگی ،بڑائی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتیں ہیں۔مزید لکھتے ہیں کہ مخلوق میں سے ہر چیزاس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے ۔لیکن اے لوگو!تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لئے کہ وہ تمہارے زبان میں نہیں ۔حیوانات،نباتات ،جمادات سب اس کی تسبیح خواں ہیں۔
    ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے۔(بخاری،کتاب المناقب:ح:3579)
    مفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے ،یعنی صرف ان چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے ،جو عرف میں ذوی العقول کہلاتیں ہیں ،یعنی انسان اور جن۔۔۔یہ ”ہدایت“ انبیاءاور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے انسانوں کو پہنچتیں ہیں ۔۔۔۔پھر کوئی قبول کرکے مسلمان ہوجاتا ہے اور کوئی رد کر کے کافر ہوجاتا ہے ۔تیسرا درجہ” ہدایت“ کا اس سے بھی زیادہ خاص ہے کہ صرف مومنین و متقین کے ساتھ مخصوص ہے۔۔۔یہ ہدایت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاواسطہ انسان پر فائز ہوتی ہے ۔۔۔اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے۔۔۔یعنی ایسے اسباب اور حالات پیدا کردینا کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور اُن پر عمل کرنا آسان ہوجائے ۔۔۔اور ان کی خلاف ورزی دشوار ہوجائے ۔۔۔۔اس تیسرے درجے کی وسعت غیر محدود ہے ۔۔۔اور اس کے درجات غیرمتناہی ہیں ۔۔۔یہی درجہ انسان کی ترقی کا میدان ہے ۔۔۔اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس کے درجہ ہدایت میں زیاتی ہوتی رہتی ہے ۔۔۔۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیاتی کا ذکر ہے ۔۔
    جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ الخ محمد17 پارہ 24
    (ترجمہ :اور وہ لوگ جنہوں نے ہدایت پائی ،مزید عطاءکرتا ہے ان کو ہدایت اور عطاءفرماتا ہے انہیں ان کے حصہ کا تقویٰ

    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ عزو جل فرماتا ہے جو لوگ ہدایت کا قصد کرتے ہیں انہیں خود خدا بھی توفیق دیتا ہے اور ہدایت نصیب فرماتا ہے ،پھر اس پر جم جانے کی ہمت بھی عطاءفرماتا ہے اور ان کی ہدایت بڑھاتا رہتا ہے اور انہیں رشد و ہدایت الہام فرماتا رہتا ہے ۔
    اورمفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جو لوگ راہ پر ہیں (یعنی مسلمان ہوچکے ہیں )اللہ تعالیٰ ان کو (احکام سننے کے وقت )اور زیادہ ہدایت دیتا ہے (کہ وہ ان احکام جدیدہ پر بھی ایمان لاتے ہیں یعنی ان کی ایمانیات کی تعداد بڑھ گئی یا کہ ان کے ایمان کو اور زیادہ قوی اور پختہ کردیتے ہیں جو عمل صالحہ کا خاصہ ہے کہ اس سے ایمان میں مزید پختگی پیدا ہوتی ہے )اور ان کو تقویٰ کی توفیق دیتا ہے۔(معارف القرآن ج 8 ص 34)
    معزز قارئین کرام!
    خلاصہ کلام یہ ہے کہ ”ہدایت“ایک عظیم نعمت ہے ۔۔۔اور الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہدایت والوں میں کیا .....جو ہدایت کا پہلا درجہ ہے ۔۔۔۔لیکن اس عظیم ہدایت کے ملنے کے بعد ایسا نہیں کہ ہم مسلمان اپنی اپنی زندگیوں کی رنگینیوں میں گم ہوجائیں ۔۔ ۔اور قرآن اور سنت کے احکامات بھلا بیٹھیں ۔۔۔۔نہیں بلکہ اس کے بعدہما رے سامنے دوسرے درجہ کی ہدایت کا میدان ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ جو لامحدود ہے۔۔۔ اور مومنین اور متقین کے لئے ہے ۔۔۔
    میرے مسلمان بھائیوں اور دوستو!
    الحمد للہ پہلی ہدایت(یعنی مسلمان ہونا) تو ہمیں مل گئی ۔۔۔ لیکن ہدایت کا دوسرا اور سب اہم اور لامحدود درجہ والی ”ہدایت“ کیسے ملتی ہے ؟؟؟یا کس کس کو ملتی ہے ؟؟؟
    یہ جاننے کے لئے اس سلسلہ کا مطالعہ فرماتے رہیں
    (ضروری گذارش :اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں .جزاک اللہ
    .....جاری ہے ......
    [URL="http://www.itdunya.com/showthread.php?p=1482439&posted=1#post1482439"][SIZE="4"]Pakistan k masail or un ka yaqini or mustaqil hal
    Once Must Read
    Hosakta hai apko apkey masail k Hal bhi mil jaey[/SIZE][/URL]

  2. #2
    filmstarali's Avatar
    filmstarali is offline Senior Member+
    Last Online
    5th January 2015 @ 10:21 AM
    Join Date
    01 Jul 2010
    Location
    (¯`·.¸¸.-> °º ĸaracнι º° <-.¸¸.·´¯)
    Gender
    Male
    Posts
    2,600
    Threads
    162
    Credits
    1,075
    Thanked
    379

    Default


    Mah Shal Allah


    I Love ITDunya

    Image size in Signature = 30 KB Maximum


  3. #3
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    معزز قارئین کرام....احادیث پاک میں سورہ فاتحہ کو ام القرآن ،فاتحہ الکتاب اور سبع مثانی کہا گیا ہے ۔
    (مسند احمد:2/448-14/311)
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بعض سلف کا فرمان ہے کہ سارے قرآن پاک کا راز سورة فاتحہ میں ہے ۔اور پوری سورة کا راز ”ایاک نعبد وایاک نستعین“(یعنی تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں) میں ہے۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان (نصف نصف)بانٹ لیا ہے ،اس کا آدھا حصہ میرا ہے اور آدھا حصہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ طلب کرے ۔جب بندہ ”الحمد للہ رب العالمین(یعنی: تمام تعریفیں صرف اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے) “کہتا ہے،تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، جب کہتا ہے ”الرحمن الرحیم “(یعنی:بڑا مہربان نہایت رحم والا)“تو اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری ثناءکی ،جب وہ کہتا ہے ”ملک یوم الدین “(یعنی :مالک روز جزا کا)“اللہ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ،جب وہ کہتا ہے” ایاک نعبد و ایاک نستعین“(یعنی:تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں) تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے ۔پھر وہ آخری سورت تک پڑھتا ہے (اھدنا الصراط المستقیم ہ صراط الذین انعمت علیہم لا غیر المغضوب علیہم ولاالضآلین ہ) (یعنی: دکھا ہم کو راستہ سیدھا،راستہ ان لوگوں کاکہ انعام فرمایا ان پر، نہ وہ جن پر غضب ہوا( تیرا)اور نہ بھٹکنے والے (کا)۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لئے ہے اور میرا بندہ جو مجھ سے مانگے ،اس کے لئے ہے “
    (مسلم ،کتاب الصلوة :باب وجوب قرائة فاتحہ فی کل رکعة ،ح:395 ص 52)
    سورہ فاتحہ ہم ہرنماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔سورہ فاتحہ جو دعا بھی ہے ۔۔۔ہم سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناءبیان کرتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہیں ۔۔۔اللہ تعالیٰ سے صراط مستقیم(سیدھا راستہ) طلب کرتے ہیں ۔۔۔اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن لوگوں پر تونے انعام فرمایا ۔۔۔۔اور ہمیں ان لوگوں کے راستے سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو راستے سے بھٹک گئے ۔ ۔۔
    بزرگوں نے سورہ فاتحہ کی تفسیر کافی تفصیل سے کی ہے ۔۔۔جو اگر ہم لکھنا شروع کریں تو بات کافی طویل ہوجائے گی ۔۔۔مختصر ہم اپنے موضوع کی مناسبت سے کوشش کرتے ہیں۔
    امام ابو جعفر بن جریر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک اس آیت کی تفسیر میں سب سے اولیٰ یہ ہے کہ ہم کو توفیق دی جائے جو اللہ کی مرضی ہو اور جس پر چلنے کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں سے راضی ہوا اور ان پر انعام کیا ہو۔۔۔صراط مستقیم یہی ہے۔۔۔ اس لئے کہ جس شخص کو اس کی توفیق مل جائے جس کی توفیق اللہ کے نیک بندوں کو تھی جن پر اللہ کا انعام ہوا تھا۔۔۔جو نبی ،صدیق ،شہید اور صالح لوگ تھے ۔۔۔انہوں نے اسلام کی اور رسولوں کی تصدیق کی کتاب اللہ کو مضبوط تھام رکھا ۔۔۔اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائے ۔۔۔اس کے منع کئے ہوئے کاموں سے رک گئے ۔۔۔اور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے چاروں خلفاءاور تمام نیک بندوں کی راہ کی توفیق مل جائے تو یہی صراط مستقیم ہے ۔
    ہم سورہ فاتحہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے وہ راستہ طلب کرتے ہیں جو انبیاءکرام،صدقین،شہداء،صا لحین کا راستہ ہے۔
    حدیث پاک میں نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال بیان کی کہ صراط مستقیم کے دو طرف دو دیواریں ہیں ۔۔۔ان میں کئی ایک کھلے دروازے ہیں اور دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں۔۔۔ ۔صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا مقرر ہے جو کہتا ہے کہ اے لوگوں تم سب کے سب اسی سیدھی راہ پر چلے آﺅ ۔۔۔۔ٹیڑھی ترچھی ادھر ادھر کی راہوں کو نہ دیکھونہ ان پر جاﺅ۔۔۔اس راستے سے گذرنے والا جب کوئی شخص ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو ایک پکارنے والا کہتا ہے کہ خبردار اسے نہ کھولنا ۔۔۔اگر کھولا تو اسی راہ لگ جاﺅ گے اور صراط مستقیم سے ہٹ جاﺅ گے ۔۔۔پس صراط مستقیم تو اسلام ہے ۔۔۔اور دیواریں اللہ تعالیٰ کی حدیں ہیں ۔ ۔ ۔اور کھلے ہوئے دروازے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزیں ہیں ۔۔۔اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم ہے ۔۔۔اور راستے کے اوپر پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو ہر ایماندار کے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور واعظ کے ہوتا ہے ۔(ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ حدیث ابن ابی حاتم،ابن جریراور نسائی میں بھی ہے اور اس کی اسناد حسن صحیح ہیں )(مسند احمد :4/182،183-29/182)(ترمذی،ح:2859) (صحیح)
    معزز قارئین کرام....اس حدیث پاک پر خصوصی غور وفکر کی درخواست ہے۔۔۔”صراط مستقیم “اسلام کو فرمایا گیا ہے ۔۔۔اور اس راستہ کی دونوں طرف کی دیواروں کو حدیں بیان کیاگیا ہے ۔۔۔اور ان دیواروں میں کھلے ہوئے دروازے حرام کردہ چیزیں بیان ہوئیں ہیں ۔۔۔اور دروازے پر پکارنے والا قرآن کریم بیان ہوا ہے ۔۔۔اور راستے پر پکارنے والا زندہ ضمیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر ایماندار کو سمجھاتا ہے،ادھر ادھر جانے سے روکتا ہے۔۔۔
    ہم پچھلے حصہ میں شیطان کے بہکانے کی ایک مثال بھی پیش کرچکے ہیں ۔۔۔۔وہ ہم دوبارہ پیش کرنا چاہیں گے تاکہ آپ اس کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکیں ۔۔۔۔ فرض کریں کہ ہمارے کسی سے لین دین کے معاملہ میں ہمارے پاس اختیار ہو کہ ہم فلاں شخص سے لین دین میں چند ہزار،یا چند لاکھ زیادہ حاصل کرسکتے ہوں ۔۔۔۔اور وہ شخص مجبور ہو یا لاعلم ہو کہ ہم اس سے زائد وصول کررہے ہیں ۔۔۔۔اس موقعہ پر ہمارے دل میں ایک کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کہ ہمارے زائد پیسہ کے لینے پر دفاع کر رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔یا تو ہمارے اندر کی سوچ ہمارے زائدپیسہ لینے پر دلائل دے رہی ہوتی ہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔یا چلو کوئی بات نہیں یہ زائد پیسہ لینا بھی ہمارا نفع ہے یا حق ہے ۔۔۔۔تو ہمارے اندر ایسی کیفیت اور سوچ کا پیدا ہوناشیطانی وسوسہ ہوتا ہے۔۔۔۔جو ہمیں اللہ تعالیٰ اور رسول پاک ﷺ کے احکامات کی نافرمانی(حق دار کا اس کا حق ادا نہ کرنا)کرنے پر اکساتے ہوئے کسی نہ کسی طرح جواز پیدا کرکے ہمیں مطمئن کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔اب یہاں یوں سمجھ لیجیے کہ حق سے زیادہ چند ہزار یا چند لاکھ کی رقم کالینا وہ صراط مستقیم کے دونوں طرف کی دیواروں کے دروازے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے حرام کردہ چیزیں بیان ہوئیں ہیں ۔۔۔ قرآن پاک ہمیں پکار رہا ہوتا ہے کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ۔۔۔۔اور ایماندار شخص کے دل میں ایک واعظ ہورہا ہوتا ہے ۔۔ ۔ ۔اور اس کا زندہ ضمیر اس شخص کو اس کام سے روک رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔کہ یہ چند ہزار یا چند لاکھ کا عارضی فائدہ رب کی نافرمانی ہے۔۔۔جو میں کتنے دن استعمال کرلوں گا ۔۔۔۔پس جو شخص شیطانی وسوسہ کو دبا کر اپنے زندہ ضمیر کی آواز پر لبیک کہے وہ شخص صراط مستقیم کی حدود میں ہی رہا اور کامیاب ہوا ۔۔۔اور جو شخص ضمیر کی آواز دبا کر شیطانی وسوسہ کی مان گیا اس نے اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدو ں کو پھلانگ کر ان دروازوں میں داخل ہوگیا (جن میں داخل ہونے سے قرآن پاک پکار کر روک رہا تھا)۔۔۔اور دوسری طرف اس نے اپنے زندہ ضمیرپر بھی وار کیا۔۔۔جو رفتہ رفتہ اسی طرح یا اور دوسرے گناہوں پر زندہ ضمیر کی آواز دبا دبا کر ضمیر کومردہ کررہا ہوتا ہے۔۔۔اسی طرح اس شخص کا زندہ ضمیر ایک وقت میں آکرمردہ ضمیر ہوجاتاہے۔۔۔جو بالآخر ایک وقت میں آکر اس شخص کو آواز لگانا یا واعظ معدوم ہوتا جاتا ہے۔
    اور یوں ایک شخص شیطان کے بہکاوے میں آکر ”صراط مستقیم “سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔۔۔۔
    یہ ایک مثال ہے ۔۔۔آپ لوگ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن اور سنت کی تمام نافرمانیوں کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں ۔ ۔۔کہ ہم کس طرح شیطانی وسوسہ کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔اور کس طرح ہم اپنے زندہ ضمیر کی آواز کو دبا دباکر اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدوں کو پھلانگ کر ”صراط مستقیم“کے دونوں طرف کے ان دروازوں میں داخل ہوجاتے ہیں جن میں داخل ہونے سے قرآن پاک ہمیں پکار پکار کر منع کررہا ہوتا ہے ۔

    ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں .جزاک اللہ
    ....جاری ہے.....

  4. #4
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default

    jazakallah
    Plz Resize ur Signature (MAX Size is 30 KB )

  5. #5
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    jazakallah

    bhut umda sharing

  6. #6
    Join Date
    07 Jan 2011
    Location
    Bruxelles
    Gender
    Male
    Posts
    19,938
    Threads
    1080
    Credits
    172,407
    Thanked
    3333

    Default

    Jazakallah

    ایک طرف لمبی لمبی امیدیں
    دوسری طرف کل نفس ذائقۃ الموت

  7. #7
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    گذشتہ سے پیوستہ........یہاں ہم سے ایک اور غلطی ہوتی ہے ۔۔۔اور ہم ایک اور شیطانی وسوسہ کا شکار ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔وہ یہ کہ جب ہم کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔تو ہمیں پھر قرآن پاک پکارتا ہے کہ اس غلطی پر توبہ کر لو لیکن ہم ایک بار پھر شیطانی وسوسہ کا شکار ہوکر اس غلطی پر توبہ نہیں کرتے۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے۔وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّـهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّـهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَىٰ مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ الخ اٰل عمران 135 پارہ 4)
    ترجمہ:جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہوجائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراًًاللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کااستغفارکرنے لگتے ہیں،فی الوقع اللہ کے سوااور کوئی گناہوں کو بخش بھی نہیں سکتا،یہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے

    ابن کثیر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں( بحوالہ مسند عبدالرزاق )لکھتے ہیں کہ یہی وہ آیت مبارکہ ہے کہ جب یہ نازل ہوئی تو ابلیس رونے لگا۔۔۔مزید لکھتے ہیں کہ اصرار کرنے سے مراد یہ ہے کہ معصیت پر بغیر توبہ کئے اڑ نہیں جاتے ۔اگر کئی مرتبہ گناہ ہوجائے تو کئی مرتبہ استغفار بھی کرتے ہیں۔۔۔
    مسند ابو ایعلی میں ہے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ اصرار کرنے والا اوراڑنے والا نہیں جو استغفار کرتا رہتا ہے ۔اگر چہ(بالفرض )اس سے ایک دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہوجائے۔(ابو داﺅد ،کتاب الصلاة:باب فی استغفار ،ح :1514)(ترمذی،کتاب الدعوات: باب(106۔121)ماامراستغفار،ح:3559) (صحیح)
    ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا"ایک بندہ گناہ كر بيٹھا يا كہا كہ ايك بندے نے گناہ كر ليا تو كہنے لگا: اے ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے يا فرمايا مجھ سے گناہ ہو گيا ہے تو مجھے بخش دے، تو اس كا رب كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس پر مؤاخذہ بھى كرتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ بندہ ركا رہا پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا : اس سے گناہ ہو گيا تو كہنے لگا: ميرے رب ميں نے گناہ كر ليا ہے مجھے معاف كردے، تو اللہ تعالى كہتا ہے: كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہوں كو بخشتا ہے اور ان كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، پھر جتنا اللہ تعالى نے چاہا وہ گناہ سے ركا رہا اور پھر گناہ كر بيٹھا يا فرمايا اس سے گناہ ہو گيا، راوى كہتے ہيں بندہ كہتا ہے اے ميرے رب ميں گناہ كر بيٹھا ہوں، يا فرمايا: مجھ سے گناہ ہو گيا ہے لھذا مجھے بخش دے تو اللہ تعالى كہتا ہے، كيا ميرے بندے كو علم ہے كہ اس كا كوئى رب ہے جو گناہ بخشتا ہے، اور اس كى سزا بھى ديتا ہے، ميں نے اپنے بندے كو بخش ديا، يہ تين بار فرمايا... " الحديث
    (مسند احمد:2۔296)(بخاری،ح:7507)(مسلم،ح :2757)
    سبحان اللہ ۔۔۔ہمارا رب کتنا غفور رحیم ہے ۔۔۔وہ اپنے بندوں کی بار بارخطاﺅں پر بار بار بخشش کی خوشخبری سناتا ہے۔۔۔اور ہم بار بار شیطانی وسوسوں کا شکار ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔اور غلطی پر غلطی کرتے ہیں ۔۔۔ اور توبہ بھی نہیں کرتے۔۔۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے اسکے دل میں ایک سیاہ دھبہ پڑ جاتا ہے ۔ پس اگر وہ اس سے جدا ہو گیا اورتوبہ استغفار کی تو اسکے دل پر صیقل ہو جاتی ہے ۔اور اگر دوبارہ کیا تو اور سیاہی بڑ ھتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چڑھ جاتی ہے ۔ اور یہ ہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ یوں نہیں بلکہ زنگ چڑ ھاد ی ہے انکے دلوں پر ان گنا ہوں کے سبب کہ وہ کرتے تھے ۔(السنن لا بن ماجۃ: 2/ 323)(کنزالعمال للمتقی،10189۔۔۔۔۔4/210)(التفسیر للطبری،30/62)(فتح الباری للعسقلانی 8/696)
    میرے بھائیوں دوستو اور بزرگو!
    یہ وہ ایک بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے ہم مسلمان قرآن و سنت پر ایمان رکھتے ہوئے بھی قرآن و سنت کے نور سے مستفید نہیں ہو پاتے ۔۔۔۔ کیوں کہ ہم گناہ تو کرتے ہیں لیکن گناہوں پر توبہ نہیں کرتے جس کے سبب ہمارے قلب زنگ آلود ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔۔
    شہید مولانا یوسف لدھیانوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے دِل میں نیکی اور بدی کو پہچاننے کی ایک قوّت رکھی ہے، جس طرح ظاہری آنکھیں اگر اندھی نہ ہوں تو سیاہ و سفید کے فرق کو پہچانتی ہیں، اسی طرح دِل کی وہ قوّت، جس کو “بصیرت” کہا جاتا ہے، صحیح کام کرتی ہو تو وہ بھی نیکی اور بدی کے فرق کو پہچانتی ہے۔ اگر آدمی کوئی غلط کام کرے تو آدمی کا دِل اس کو ملامت کرتا ہے اسی کو “ضمیر” کہا جاتا ہے، لیکن جب آدمی مسلسل غلط کام کرتا رہے تو رفتہ رفتہ اس کا دِل اندھا ہوجاتا ہے اور وہ نیکی و بدی کے درمیان فرق کرنا چھوڑ دیتا ہے، اسی کا نام “ضمیر کا مرجانا” ہے۔ جن لوگوں کا ضمیر زندہ اور قلب کی بصیرت تابندہ اور روشن ہو ان کو بعض اوقات فتویٰ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز جائز ہے، مگر ان کا ضمیر اس پر مطمئن نہیں ہوتا، اس لئے ایسے اربابِ بصیرت ایسی چیز سے پرہیز کرتے ہیں، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حدیث میں فرمایا گیا ہے: “اپنے دِل سے فتویٰ پوچھو، خواہ فتویٰ دینے والے تمہیں جواز کا فتویٰ دیں"
    لیکن میرے بھائیوں دوستو اور بزرگو ۔۔۔۔۔ یہ باتیں قلبی بصیرت سے سمجھ میں آتی ہیں ۔۔۔۔ اور قلبی بصیرت حاصل کرنے کے لئے قلب پر سے زنگ کی صفائی ضروری ہے ۔۔۔ اور قلب کی صفائی کے لئے توبہ استغفار ضروری ہے ۔۔
    ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى علیہ كہتے ہيں کہ عمر بن عبد العزيز رحمہ اللہ تعالى كا قول ہے:
    لوگو جو گناہ كر بيٹھا ہے اسے چاہيے كہ وہ اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرلے، اور اگر دوبارہ گناہ كر لے تو پھر توبہ كرے، اور اگر پھر گناہ ہو گيا تو اسے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، كيونكہ يہ گناہ مردوں كى گردنوں ميں طوق ہيں، اور ان پر مصر رہنا ہلاكت ہے.
    میرے بھائیوں دوستو اور بزرگو۔۔۔۔ شيطان يہ چاہتا اور پسند كرتا ہے كہ كاش گنہگار بندہ نااميدى ميں پڑ جائے تاكہ اسے توبہ اور اللہ تعالى كى طرف رجوع كرنے سے روكا جا سكے۔۔۔۔ اور ہم لوگ شیطانی وسوسہ میں آکر بجائے اپنے گناہوں پر ندامت کرتے اور توبہ استغفار کرتے ،ہم لوگ گناہوں کی دلدل میں مزید اترتے چلے جاتے ہیں اور اپنے دلوں کو مزید گناہوں سے زنگ آلودہ کرتے جاتے ہیں۔
    میرے بھائیوں دوستو اور بزرگو ۔۔۔۔۔۔ ہمیں دنیا و آخرت کے مسائل کا حل درکار ہے تو سب سے پہلے ہمیں توبہ استغفار کو اپنی زندگی کا حصہ بنالینا چاہیے ۔۔۔۔۔ گناہوں سے بچیں کثرت سے استغفار کریں ۔۔۔۔ اللہ رب العزت سے دعائیں کریں ۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ رب العزت ہمارے گناہوں سے زنگ آلودہ دلوں کی صفائی فرمادے گا ۔۔۔۔ اور جب ہمارے قلوب سے گناہوں کا زنگ اترنے لگے گا ۔۔۔۔۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں قرآن اور سنت کا نور اترنے لگے گا ۔۔۔۔ اور یقین مانیں کہ جس دن ہمارے قلوب قرآن و سنت کے نور سے منور ہونے لگے ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے مسائل خود بخود حل ہونے لگیں گے۔

    ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشاندہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
    ۔۔۔۔۔جاری ہے ۔۔۔۔
    Last edited by nasirnoman; 22nd June 2011 at 01:49 AM. Reason: one part missed

  8. #8
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    میرے مسلمان بھائیوں بہنوں دوستو اور بزرگو!
    اگر آج ہمارے پاس ہدایت کا نور ہوتے ہوئے بھی ہم اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں اور اتنی زبردست نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی اگر آج ہم مسلمان اتنے شدید مسائل کا شکار ہیں ۔۔۔۔تو یقین جانیں کہ یہ ہماری اپنی ہی کوتاہیاں ہیں ۔۔ ۔۔کہ ہم نے کبھی اپنے شدید مسائل کا حل قرآن اور سنت میں ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں ؟؟؟
    اب سوال یہ ہے کہ ہمیں یہ ہدایت کا نور کیسے ملے گا ؟اور کن لوگوں کو یہ ہدایت کا نور ملتا ہے ؟
    ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ الخ العنکبوت 69 پارہ 21
    (ترجمہ:اور وہ لوگ جو جدوجہد کرتے ہیں ہماری خاطر تو ہم ضرور دکھائیں گے انہیں اپنے راستے ،اور یقینا اللہ تعالیٰ ساتھ ہے نیکی کرنے والوں کے

    مفتی شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جہاد کے اصل معنی دین میں پیش آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے ہیں ۔۔۔ اس میں وہ روکاوٹیں بھی داخل ہیں جو کفار اور فجار کی طرف سے پیش آتیں ہیں ۔۔۔کفار سے جنگ و مقاتلہ اس کااعلیٰ فرد ہے ۔۔۔اور وہ روکاوٹیں بھی داخل ہیں جو اپنے نفس اور شیطان کی طرف سے پیش آتیں ہیں ۔۔۔جہاد کی ان دونوں قسموں پر اس آیت میں یہ وعدہ ہے کہ ہم جدوجہد کرنے والوں کو اپنے راستوں کی ہدایت کردیتے ہیں ۔۔۔یعنی جن مواقع میں خیر و شر یا حق و باطل یا نفع و ضرر میں التباس ہوتا ہے ، عقلمند انسان سوچتا ہے کہ کس راہ کو اختیار کروں ؟ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ اپنی راہ میں جدوجہد کرنے والوں کو صحیح اور سیدھی ،بے خطر راہ بتادیتے ہیں ۔۔۔یعنی ان کے قلوب کو اسی طرف پھیر دیتے ہیں جس میں ان کے لئے خیر و برکت ہو ۔
    (معارف القرآن ج 6 ص 716)
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ راہ اللہ میں مشقت کرنے والے سے مراد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے تابع فرمان لوگ ہیں جو قیامت تک ہوں گے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ان کوشش اور جستجو کرنے والوں کی رہنمائی کریں گے اور دین اور دنیا میں ان کی رہبری کرتے رہیں گے ۔مزید لکھتے ہیں کہ ابو احمد عباس ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جو لوگ اپنے علم پر عمل کرتے ہیں ،اللہ ان امور میں بھی ہدایت دیتا ہے جو ان کے علم میں نہیں ہوتے ۔
    ابو الدردا رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے جو علم لوگوں کو دیا گیا ہے جو لوگ اپنے علم پر عمل کرنے میں جہاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دوسرے علوم بھی منکشف کردیتا ہے جو اب تک حاصل نہیں ۔۔۔اور فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جو لوگ طلب علم میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لئے عمل بھی آسان کردیتے ہیں ۔(تفسیر مظہری)

    معزز قارئین کرام ....اللہ تعالیٰ ہدایت کا یہ انمول خزانہ ان لوگوں کو عطا ءفرماتا ہے ۔۔۔۔جو دین کے خاطر جدوجہد کرتے ہیں۔
    اور یہی وہ نفس کی اور شیطان کی طرف سے روکاوٹیں ہیں جن کی مختصر وضاحت ہم نے پچھلی پوسٹ میں کی تھی .... یعنی جب بھی ہمیں دینی یا دنیاوی معاملات میں نفس کی طرف سے روکاوٹیں آتی ہیں
    یعنی ہمارے سامنے دو راستے ہوں ... ایک اسلام کا .... ایک اپنی نفسانی خواہشات کا
    .
    ... اور ہمارا دل نفسانی خواہشات کی طرف زیادہ مائل ہو .... لیکن ہم اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرکے اپنی نفسانی خواہشات کو دبا کر اسلام کے احکامات کی تابعداری کرتے ہیں .... یا اسی طرح عبادات میں جیسے نماز کے وقت ہماری نفسانی خواہشات ہمیں نماز میں تاخیر پر یا نماز چھوڑنے پر اکساتی ہے ....یا کسی سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں ....یا کسی کو دھوکہ دے کر تھوڑا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں....یا ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی کرتے ہیں ...یا حقوق العباد میں کوتاہیاں کرتے ہیں .....یا بینکوں میں پیسہ رکھ کر سود لیتے ہیں ....یا نفس کی خواہش پر ہم گانا بجانا سنتے ہیں .... یا فلمیں دیکھتے ہیں .... غرض یہ ہے یہ سب عمل یا اسی طرح اور جتنی بھی ہماری نافرمانیاں ہیں یہ سب ہم اپنی نفسانی خواہشات کے تابع ہوکرکرتے ہیں .... ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم اپنی خواہشات پوری کرنے کے لئے دین اسلام کے کتنے احکامات کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں .....اور صرف نظر اس کے کہ ہم اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے کتنے دین اسلام کے احکامات کی نافرمانی کے مجرم ٹہرتے ہیں .... اور اسی پر بس نہیں ہوتا بلکہ ہم اپنے ان گناہوں پر نہ تو ندامت کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے گناہوں کی توبہ کرتے ہیں .... اور یوں ہمارے دلوں پر ہمارے گناہوں کے سبب سیاہ دھبے لگتے لگتے ضمیر مردہ ہوتا چلا جاتا ہے .... اور پھر اس گناہوں سے آلودہ قلب میں کس طرح قرآن سنت کا نور اترے گا ؟؟؟

    تو میرے مسلمان بھائیوں اور بہنوں !
    اگر ہم آج بھی اپنے شدید مسائل کی دلدل سے نکلنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں توبہ کو معمول بنانا پڑے گا کہ جس کے سبب ہمارے دلوں سے گناہوں کے زنگ دھلے گا .... یہ وہ پہلی جدوجہد ہوگی کہ جس کے سبب اللہ رب العزت ہماری مدد فرمائے گا

    پھر ہم نے اپنی اصلاح کی جستجو کرنی ہے ...دینی یا دنیاوی معاملات پر بلکہ ہر قدم قدم پر ہمیں دینی احکامات دیکھنے ہیں ... اور پھر اپنا ہر عمل پر اپنی خواہشات کو دبا کر کہ ہمارا دل کیا چاہتا ہے .... یا کون سے راستہ میں آسانی ہے .... اس سوچ کو چھوڑ کر صرف اور صرف دین اسلام کے احکامات کی تابعداری کرنی ہے ... یہ وہ جدوجہد ہوگی کہ جس پر اللہ رب العزت ہماری ہدایت میں اضافہ فرمائے گا.

    پھر اسی طرح عبادات پر بھی اپنی سستی اور کوتاہی کو پس پشت ڈال کر اذان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اللہ رب العزت کے دربار میں پانچوں ٹائم پابندی سے حاضری دینے کی کوشش کرنی ہے ... یہ وہ جدوجہد ہوگی جس سے اللہ تعالیٰ ہم سب کی ہدایت میں اضافہ فرمائے گا

    اسی طرح اخلاقیات،معاشیات ،حقوق العباد، لین دین وغیرہ غرض یہ کہ ہر ہر معاملے پر اپنی اپنی زندگی کا بنیادی اصول یہی بنا لیں کہ ہم نے اپنی خواہشات کی تابعداری نہیں کرنی بلکہ اپنی خواہشات کو دین کے تابع کردینا ہے .... اس کے بعد یقینا اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت ہمارے شامل حال ہوکر ہمیں ذلتوں سے صفتوں سے نکال کر عزتوں میں اضافے کا سبب بن جائے گی ... جیسا کہ مسلمانوں کی تاریخ اس پر گواہ ہے.

    اور میرے پیارے مسلمان بھائیوں اور بہنوں !
    اس ساری جدوجہد میں کبھی آپ کی جیت ہوگی ......تو کبھی نفس کی اور شیطان کی بھی جیت ہوگی....لیکن نفس کی اور شیطان کی جیت پر مایوس نہیں ہونا ہے.... کیوں کہ گرتے ہی ہیں شہسوار میدان جنگ میں ... اور شہسوار کا کام ہمت ہارنا نہیں ہوتا....... بلکہ اگر شہسوار کو جنگ جیتنے کی خواہش ہے تو ایک بار پھر اٹھ کر نئے ہمت و حوصلہ سے مقابلہ کرنا ہوتا ہے .... اسی طرح نفس کی اور شیطان کی جیت پر ہمت سے کام لیں...... اور اگلی دفعہ زیادہ جدوجہد کرکے نفس کو ہرانے کی کوشش کرنا ہے .... کیوں کہ یہ تو حق و باطل کی جدوجہد ہے جو قیامت تک جاری رہنی ہے ....اور نفس اور شیطان کی طرف سے چوٹ پہنچے کے بعد اس زخم کو بھرنے کا بہترین مرہم "توبہ" ہے....... جو شیطان اور نفس کی طرف سے لگائے گئے زخم کو ایک لمحہ میں ہی بھردیتا ہے .... اگر چہ شیطان اور نفس آپ کو ستر دفعہ ہی کیوں نہ زخمی نہ کردے........ آپ ہر دفعہ "توبہ" کا مرہم لگاکر اپنے زخموں کو بھر سکتے ہیں .

    (ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں .جزاک اللہ)
    ........جاری ہے......

  9. #9
    nasirnoman is offline Senior Member
    Last Online
    25th November 2017 @ 05:24 PM
    Join Date
    17 Dec 2008
    Posts
    912
    Threads
    55
    Credits
    1,074
    Thanked
    518

    Default

    بسم اللہ الرحمن الرحیم
    السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
    معزز قارئین کرام ۔۔۔۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ جو میرے بھائی بہن دوست اس تحریر کو یہاں تک پڑھ چکے ہیں ۔۔۔تو ان شاءاللہ تعالیٰ آپ ضرور سمجھ رہے ہوں گے(کیوں کہ قرآن اور سنت کی بات سننا بھی انسان کے اندر روشنی ہونے کی علامت ہے)کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کا یہ انمول خزانہ ان لوگوں کو عطا ءفرماتا ہے ۔۔۔۔جو دین کے خاطر جدوجہد کرتے ہیں۔
    ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّـهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ﴿١٥﴾ يَهْدِي بِهِ اللَّـهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلَامِ وَيُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ )المائدہ 15،16 پارہ 6
    (ترجمہ:بے شک آگئی ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی اور کتاب مبین ،دکھاتا ہے اس کے ذریعہ سے اللہ ہر اس شخص کو جو طالب ہو اس کی رضا کا ،سلامتی کی راہیں اور نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف اپنے اذان سے اور چلاتا ہے ان کو سیدھی راہ پر)
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ فرماتا ہے کہ اسی نے اس نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب اتاری ہے ،جو متلاشی حق کو سلامتی کی راہ بتلاتی ہے ،لوگوں کو ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے جاتی ہے اور راہ مستقیم کی رہبر ہے ۔اسی کتاب کی وجہ سے اللہ کے انعاموں کو حاصل کرلینا اور اس کی سزاﺅں سے بچ جانا بالکل آسان ہوگیا ہے ۔یہ ضلالت کو مٹادینے والی اور ہدایت کو واضح کر دینے والی ہے ۔
    اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔(فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ۖ وَمَن يُرِدْ أَن يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ ۚ كَذَٰلِكَ يَجْعَلُ اللَّـهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ ﴿١٢٥﴾وَهَـٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ الخ الانعام 125،126 پارہ 8
    (ترجمہ :پس (حقیقت یہ ہے کہ )جس کے لئے ارادہ کرتا ہے اللہ کہ ہدایت دے اسے تو کھول دیتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لئے اور جس کے لئے ارادہ کرتا ہے کہ گمراہ کرے اس کو تو کردیتا ہے اس کے سینے کو تنگ ،گھٹا ہوا ،اسے ایسے معلوم ہوتا ہے گویا اس کی روح پرواز کررہی ہو آسمان کی طرف ۔اس طرح مسلط کرتاہے اللہ ناپاکی اور عذاب ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے ،اور یہ ہے تیرے رب کا راستہ سیدھا ، بلاشبہ واضح کردیئے ہیں ہم نے اس کے نشانات ان لوگوں کے لئے جو نصیحت قبول کرتے ہیں )
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ جس کو ہدایت کرنے کا ہوتا ہے اس پر نیکی کے راستے آسان ہوجاتے ہیں۔
    جیسے اور جگہ ارشاد ہے (اللہ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت پیدا کردی ۔اور اسے تمہارے دلوں کو زینت دار بنا دیا اور کفر و فسق اور نافرمانی کی تمہارے دلوں میں کراہیت ڈال دی ہے ۔یہی لوگ راہ یافتہ اور نیک بخت ہیں )الحجرات 7پارہ 26
    ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کا دل ایمان و توحید کی طرف کشادہ ہوجاتا ہے ۔(الدر منشور 3/356)
    حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی بابت سوال ہوا تو فرمایا کہ اس کے دل میں ایک نورڈ ال دیا جاتا ہے جس سے اس کاسینہ کھل جاتا ہے ۔لوگوں نے اس کی نشانی دریافت کی تو حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جنت کی طرف جھکنااور اس کی جانب رغبت کامل رکھنا اور دنیا کے فریب سے بھاگنا اور الگ ہونا اور موت کے آنے سے پہلے تیاریاں کرنا ۔
    (تفسیر عبدالرزاق 2ـ8/217)
    اور گمراہ شخص کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اسلام باوجود آسان اور کشادہ ہونے کے اسے سخت اور تنگ معلوم ہوتا ہے ۔خود قرآن پاک میں ہے ۔(ترجمہ:اللہ نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی)الحج 78
    ۔لیکن منافق کا شکی دل اس نعمت سے محروم رہتا ہے ۔اسے لاالہ الااللہ کا اقرار ایک مصیبت معلوم ہوتی ہے ۔جیسے کسی آسمان کی طرف چڑھائی مشکل ہو ۔جیسے وہ اس کے بس کی بات نہیں ۔
    اور جگہ فرمان ہے۔(أَفَمَن شَرَحَ اللَّـهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَىٰ نُورٍ مِّن رَّبِّهِ ۚ فَوَيْلٌ لِّلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُم مِّن ذِكْرِ اللَّـهِ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ الخ الزمر 22 پارہ 23
    (ترجمہ:بھلا وہ شخص کہ کھول دیا ہو اللہ نے اس کا سینہ اسلام کے لئے جس کے نتیجہ میں ہووہ روشنی میں اپنے رب کی طرف سے (کہیں ہوسکتا ہے اس کے مانند جس کا دل سخت ہو؟)سو بربادی ہے ان لوگوں کے لئے جن کے دل سخت ہوگئے (اور)وہ غافل ہیں اللہ کی یاد سے یہی لوگ ہیں پڑے ہوئے کھلی گمراہی میں )
    ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ذرا سوچو!جس نے رب کے پاس سے نور پالیا ،وہ اور سخت سینے اور تنگ دل والا برابر ہوسکتا ہے ؟حق پر قائم اور حق سے دور یکساں ہوسکتے ہیں ؟جیسے اور جگہ فرمان ہے ۔(ترجمہ:بھلا وہ شخص جو تھا (پہلے)مردہ،پھر ہم نے زندگی بخشی اس کو اور عطاءکی ہم نے اس کو روشنی کہ طے کرتا ہے (زندگی کی)راہ اس کی مدد سے لوگوں کے درمیان کیا اس شخص کی مانند ہوسکتا ہے جو پڑا ہے تاریکیوں میں اور نہ نکل سکتا ہو اس میں سے ؟)الانعام 122 پارہ 8
    پس یہاں بھی بطور نصیحت بیان فرمایا کہ جن کے دل اللہ کے ذکر سے نرم نہیں پڑتے ،احکام الٰہی کو ماننے کے لئے نہیں کھلتے ،رب کے سامنے عاجزی نہیں کرتے بلکہ سنگدل اور سخت دل ہیں ،ان کے لئے ویل ہے ،خرابی اور افسوس وحسرت ہے۔یہ بالکل گمراہ ہیں۔
    مفتی محمد شفیع رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ قلب میں اس کی استعداد موجو دہو کہ جو آیات الٰہیہ بصورت کتاب و احکام نازل کی جاتی ہیں ان میں غور کرکے استفادہ کرسکے ۔
    مزید لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کہ کیا ایسا شخص جو کا دل اسلام کے لئے کھول دیا گیا ہو اور وہ اپنے رب کی طرف سے آئے ہوئے نور پر ہے یعنی اس کی روشنی میں سب کام کرتا ہے ۔۔۔اور وہ آدمی جو دل تنگ اور سخت دل ہو کہیں برابر ہوسکتے ہیں ۔
    میرے بھائیوں ،بہنوں، بزرگوں اور دوستو!
    مومنین کے لئے ہدایت کا وسیع میدان ہے ... جس کے درجات لامتناہی ہیں .... جس میں اضافہ دین کی خاطر جدوجہد سے ہوتا ہے .... اور جو شخص دین کی خاطر جتنی جدوجہد کرتا ہے اللہ رب العزت اُس کی ہدایت میں اضافہ فرماتا ہے .... لیکن جو لوگ ہدایت کے لئے جستجو اور دین کے لئے جدوجہد نہیں کرتے.... اور گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں ... اور اپنے گناہوں سے توبہ بھی نہیں کرتے ... ان کے قلوب میں رفتہ رفتہ سختی آجاتی ہے اور وہ ہدایت دے دور ہوجاتے ہیں ... اس لئے قرآن و حدیث پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی لوگوں کے دلوں میں قرآن و سنت کا نور نہیں اترتا .... قرآن و حدیث میں فرمان ہوئے دردناک عذابوں سے خوف نہیں آتا .... اور قرآن و حدیث میں بیان ہوئی فرمابرداری پر بشارتوں پر ہمارے قلوب نہیں دھڑکتے...... اور نہ ہمارے دلوں میں ان عظیم بشارتوں کی طلب کی جستجو پیدا ہوتی ہے .

    معزز قارئین کرام .... ان شاء اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کے آخری حصہ میں ہم اپنے سلسلہ کا خلاصہ پیش کرنا چاہیں گے ... آپ تمام بھائیوں بہنوں سے دعاؤں کی خصوصی درخواست ہے.جزاک اللہ
    ضروری گذارش اگر کسی بھائی یا دوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے .جزاک اللہ
    ....جاری ہے.....

  10. #10
    Reehab is offline Senior Member
    Last Online
    12th November 2018 @ 06:28 PM
    Join Date
    29 May 2009
    Location
    Dammam
    Gender
    Male
    Posts
    2,448
    Threads
    40
    Credits
    1,150
    Thanked
    449

    Default

    JAZAKALLAh kehran nasir baheye bari mufeed batien sahre ke hien MASHALLAH

  11. #11
    *Xpert~Baba*'s Avatar
    *Xpert~Baba* is offline SHD38SK
    Last Online
    11th January 2018 @ 08:47 PM
    Join Date
    01 May 2010
    Location
    GHAR
    Gender
    Male
    Posts
    12,921
    Threads
    907
    Credits
    983
    Thanked
    2337

    Default

    Lajwab threer
    allah tala apko iska ajar e azeem day and pkay darjkaat buland farmaye ameen

  12. #12
    Nasir rana1's Avatar
    Nasir rana1 is offline Advance Member
    Last Online
    20th December 2020 @ 03:28 AM
    Join Date
    22 May 2010
    Location
    Cape Town
    Gender
    Male
    Posts
    2,724
    Threads
    225
    Credits
    62
    Thanked
    482

    Default


Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 72
    Last Post: 29th July 2018, 05:33 PM
  2. Replies: 8
    Last Post: 28th June 2015, 08:46 AM
  3. Replies: 8
    Last Post: 2nd November 2011, 06:20 PM
  4. Replies: 13
    Last Post: 26th January 2011, 07:07 AM
  5. Replies: 18
    Last Post: 12th January 2011, 10:41 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •