سعودی عرب میں خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں ہے لیکن ایک سعودی خاتون اپنی کار خود چلاتی ہیں اور انہوں نے اس ممانعت کو چیلنج کیا ہے۔
نجلہ حریری نے معروف شہر جدہ کے آس پاس گزشتہ ہفتے ہی ڈرائیونگ شروع کی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی سعودی شہر میں مسلسل گاڑی چلانے والی وہ واحد خاتون ہیں۔
پینتالیس سالہ نجلہ حریری کہتی ہیں کہ انہیں یہ حوصلہ مشرق وسطیٰ میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں سے ملا ہے۔ انہوں نے بی بی سی سے بات چیت میں کہا ’اب بہت ہوچکا، مجھے ڈرائیونگ کا تو حق حاصل ہے۔‘
وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں خواتین کے لیے زیادہ تحفظ اس میں ہے کہ وہ خود ڈرائیو کریں۔ ہمارے ملک میں چالیس لاکھ بیرونی ڈرائیور ہیں، ہم ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خودگاڑی چلانا چاہتے ہیں۔
محترمہ حریری کے پاس مصر اور لبنان کے ڈرائیونگ لائسنس ہیں اور یہ انہوں نے ملک سے باہر رہتے ہوئے حاصل کیے تھے۔ ان کے پاس ایک انٹرنیشنل لائسنس بھی ہے جسے وہ یوروپ میں ڈرائیونگ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’خواتین کو گاڑی چلانے سے باز رکھنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے، یہ معاشرے کی روایات ہیں جو کہتی ہیں کہ عورت کو گاڑی نہیں چلانی چاہیے۔‘
نجلہ پانچ بچوں کی ماں ہیں اور انہیں اس معاملے میں ان کے شوہر کی حمایت حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی اور ان کے دوست ان پر اس کے لیے فخر کرتے ہیں۔
حالانکہ وہ یہ جانتی ہیں کہ اس کے لیے پولیس انہیں کبھی بھی راستے میں روک سکتی ہے۔ ’اس معاشرے میں میں تھوڑا زیادہ بہادر ہوں، میں ڈرتی نہیں ہوں۔‘
نجلہ کے پاس دو ڈرائیونگ لائسنز ہیں
سعودی عرب کے دور دراز علاقوں میں کبھی کبھی خواتین گاڑی چلاتی پائی جاتی ہیں لیکن اس طرح کے بڑے شہر میں خاتون کی ڈرائیونگ کے واقعات نادر ہیں۔
جو لوگ خواتین کی ڈرائیونگ کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے یہ محفوظ طریقہ ہے کہ وہ کار میں اپنے ساتھ کسی مرد کو رکھیں اور وہ عورتوں کو اس ذمہ داری سے آزاد کر کے ان کی عزت بڑھاتے ہیں۔
لیکن نجلہ اسے دعوے کو مسترد کرتی ہیں۔ ’وہ اپنے آپ سے جھوٹ بولتے ہیں۔ خواتین کے لیے زیادہ تحفظ اس میں ہے کہ وہ خود ڈرائیو کریں۔ ہمارے ملک میں چالیس لاکھ بیرونی ڈرائیور ہیں، ہم ان سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور خودگاڑی چلانا چاہتے ہیں۔‘
اس سے پہلے آپ نے سعودی میں مظاہروں کی بات بھی نہیں سنی ہوگي۔ لیکن جو بھی مشرق وسطی میں ہوا ہے اس کے بعد لوگوں کے ایک گروپ کو ہم باہر جا کر جو بھی وہ کہنا چاہتے تھے، زور سے کہنے کو قبول کرنے لگے۔ اور اس کا مجھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔
حریری کے گھر میں دو کاریں تھیں اور شوہر اور بیٹے کے گھر میں نا رہنے سے وہ بغیر ڈرائیور کے ہوتی تھیں۔ ’لیکن میں نے مناسب وقت کا انتظار کیا، میں نے اس بات کا انتظار کیا کہ پہلے دوسری عورتیں اس میں پہل کریں۔‘
لیکن جب کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آگيا ہے۔ ’اس سے پہلے آپ نے سعودی عرب میں مظاہروں کی بات بھی نہیں سنی ہوگي۔ لیکن جو بھی مشرق وسطیٰ میں ہوا ہے اس کا مجھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔‘
سعودی سماج میں خواتین کی زیادہ شراکت اور ان کے کردار کے حوالے سے جو کوششیں ہورہی ہیں، نجلہ حریری کی کوشش بھی اس کا ایک حصہ ہے۔
فیس بک کے ایک صفحہ پر یہ مہم چل رہی ہے کہ خواتین سترہ جون کو بڑی تعداد میں باہر نکلیں اور ڈرائیو کریں۔
ستمبر میں ہونے والے میونسپل انتخابات میں خواتین کے ووٹ دینے کے حق کے لیے بھی مہم چلائی جارہی ہے اور خواتین کو قانونی دستاویزات پر دستخط کرنے کی اجازت کے لیے بیداری مہم بھی چل رہی ہے۔
اس کے لیے جو آن لائن کوششیں ہورہی ہیں اس میں انیس سالہ یونیورسٹی کی طالبہ عالیہ اہم کردار نبھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ہم اپنی بات پھیلانے اور بیداری پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہاں خواتین اپنے حقوق سے واقف نہیں ہیں۔‘
Bookmarks