جب سے میرے یار دشمن ہو گئے
یہ در و دیوار دشمن ہو گئے
ہو گئی خاموشیوں سے دوستی
صاحبِ گفتار دشمن ہو گئے
پھوٹ کر رونے لگا کِھلتا گلاب
ساتھ پل کر‘ خار دشمن ہو گئے
آخرت کی فکر کرنے والوں کے
یونہی دنیا دار دشمن ہو گئے
دیکھ کر خوشحال اک کم بخت کو
سب کے سب بیمار دشمن ہو گئے
اس کہانی کو بدلنا تھا مجھے
جس کے سب کردار دشمن ہو گئے
غیر تو ہیں*غیر ان کی چھوڑئیے
آپ بھی سرکار دشمن ہو گئے
Bookmarks