زخم کے پھول
زخم کے پھول سے تسکین طلب کرتی ہے
بعض اوقات میری رُوح غضب کرتی ہے
جو تیری زُلف سے آتے ہُوں میرے آنگن میں
چاندنی ایسے اندھیروں کا اَدب کرتی ہے
اپنے انصاف کی زنجیر نہ دیکھو کہ یہاں
مفلسی ذہن کی فریاد بھی کب کرتی ہے؟
صحنِ گلشن میں ہَواؤں کی صدا غور سے سُن
ہر کلی ماتمِ صَد جشنِ طرب کرتی ہے
صرف دِن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے دوست
زندگی زُلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے
Bookmarks