آنے والی تھی خزاں ، میدان خالی کر دیا
کل ہوائے شب نے سارا لان خالی کر دیا
ہم ترے خوابوں کی جنت سے نکل کر آگئے
دیکھ ، تیرا قصرِ عالی شان خالی کر دیا
دشمنوں نے شست باندھی خمے امید پر
دوستوں نے در امکان خالی کر دیا
بانٹنے نکلا ہے وہ پھولوں کے تحفے شہر میں
اس خبر پر ہم نے بھی گلدان خالی کر دیا
لے گیا وہ ساتھ اپنے دل کی ساری رونقیں
کس قدر یہ شہر تھا گنجان خالی کردیا
ساری چڑیاں اڑ گئیں مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
میرے گھر کا صحن اور دالان خالی کر دیا
ڈائری میں سارے اچھے شعر چن کے لکھ لئے
ایک لڑکی نے مرا دیوان خالی کر دیا
Bookmarks