Jazaakallah
Jazaakallah
Jazakallah
sunrise in Madina
http://www.timeanddate.com/worldcloc...5&min=26&sec=0
مشرق
صحیح بخاری
کتاب الطب
باب: اس بیان میں کہ بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں
حدیث نمبر: 5767
حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أنه قدم رجلان من المشرق فخطبا، فعجب الناس لبيانهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن من البيان لسحرا، أو: إن بعض البيان لسحر).
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ دو آدمی مشرق کی طرف سے مدینہ آئے اور لوگوں کو خطاب کیا لوگ ان کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں یا یہ فرمایا کہ بعض تقریر جادو ہوتی ہیں۔
ایسی حدیث کو امام بخاری نے اپنی صحیح میں کتاب النکاح میں بھی بیان کیا
حدیث نمبر : 5146
آئیں اس حدیث پر بھی غور کرتے ہیں
یہ واقعہ سن 9 ہجری کا جیسے تاریخ اسلامی میں وفود کا سال کہا جاتا ہے اس حدیث میں جن دو آدمیوں کا ذکر ہے جو مشرق سے آئے تھے یہ دونوں آدمی قبیلہ بنو تمیم کے وفد کے ساتھ آئے تھے
حوالہ : تاریخ ابن کثیر جلد پنجم صفحہ 74
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قبیلہ بنی تمیم مشرق یعنی نجد میں آباد تھا
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عبدالوھاب نجدی التمیمی کا تعلق بھی قبیلہ بنو تمیم سے ہے
اس سے ثابت ہوا کہ مدینہ کے مشرق میں نجد ہی ہے
سب سے پہلے تو قبیلہ بنو تمیم کے وفد نے مدینہ آتے ہی یہ گستاخی بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت خانے میں آرام فرمارہے تھے انھوں نے باہر کھڑے ہوکر چلا چلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے لگے جس پر اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الحجرات کی آیت 4 میں انھیں اس طرح مخاطب کیا
بیشک وہ جو تمہیں حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں
( مترجم : امام احمد رضا بریلوی )
اللہ نے انھیں بے عقل کہا اور پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور اس وفد کو ملاقات کا شرف بخشا تو اس واقعہ کو امام بخاری نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے صحیح بخاری میں
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن أبي صخرة، عن صفوان بن محرز المازني، عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى نفر من بني تميم النبي صلى الله عليه وسلم فقال " اقبلوا البشرى يا بني تميم ". قالوا يا رسول الله قد بشرتنا فأعطنا. فريء ذلك في وجهه فجاء نفر من اليمن فقال " اقبلوا البشرى إذ لم يقبلها بنو تميم ". قالوا قد قبلنا يا رسول الله.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابو صخرہ نے ، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیاکہ بنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایااے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔
صحیح بخاری : کتاب المغازی: باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان حدیث نمبر : 4365
کتاب التوحید والرد علی الجہیمۃ : حدیث نمبر : 7418
پہلے تو بنو تمیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں گستاخی کی جس پر اللہ تعالٰی نے ناراض ہوکر انھیں بے عقل کہا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے جواب میں مال طلب کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض کیا ۔
امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں قبیلہ بنی تمیم کے ایک آدمی کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے
ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ جب وہ جانے کے لئے پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘
عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4351
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6163
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3610
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7432
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3344
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930
صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1064
صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066
یاد رہے عبدالوھاب نجدی التمیمی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گستاخ خبیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ
"اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ "
عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور بے عقلوں کو چاھے کتنے ہی دلائل دو وہ نہیں مانتے
والسلام
jazakallah
فرض کرتے ہیں کہ عراق مدینہ شریف کے مشرق میں ہے اس حساب سے مکہ شریف مدینہ شریف کے مغرب میں ہوا
آئیں قرآن کےبعد سب سے مستند کتاب صحیح بخاری کی احادیث شریف پڑھتے ہیں
صحیح بخاریان احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع حاجت کے وقت نہ قبلہ کی طرف منہ ہونا چاھئے نہ پشت بلکہ رفع حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو
کتاب الصلوٰۃ
باب: مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان
ليس في المشرق ولا في المغرب قبلة، لقول النبي صلى الله عليه وسلم " لا تستقبلوا القبلة بغائط أو بول ولكن شرقوا أو غربوا ".
اور (مدینہ اور شام والوں کا) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحیح بخاری
کتاب الوضو
باب: اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں
حدیث نمبر : 144
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي أيوب الأنصاري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهره، شرقوا أو غربوا ".
ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے ، کہا کہ ہم سے زہری نے عطاء بن یزید اللیثی کے واسطے سے نقل کیا ، وہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف۔
یعنی مدینہ شریف سے قبلہ نہ مشرق کی جانب ہے نہ مغرب کیطرف اس سے معلوم ہوا کہ عراق مدینہ شریف کے مشرق میں نہیں ہے
الرحیق المختوم کے صفحہ 42 کا عکس
http://www.kitabosunnat.com/kutub-li...-makhtoom.html
میں یہ پو چھنا چا ہتا ہو ں کہ علما ء د یو بند ا و ر عبد ا لو ہا ب نجد ی کا کیا تعلق ہے
Jazak Allah
Jazak Allah
Bookmarks