السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ سب دوست ایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ خیریت سے ہوں گے۔
آج میں آپ لوگوں کو ایک عاشق رسول کی زندگی کا ایک درخشہ پہلو بتانے لگا۔ ایک ایسا عاشق رسول ﷺ جس نے اپنی پوری زندگی عشق رسول ﷺ میں گذار دی۔
جب ہندوستان کے اندر انگریزوں نے اپنے پاؤں مضبوط کرلیے تو اس وقت کے ایک بہت بڑے عالم اور محدث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ؒ نےانگریزوں کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔ اور پھر اس فتوے کے بعد انگریزوں کے خلاف جہاد کی بنیاد پڑی۔ اور پھر جنگ آزادی نے ایک نیا موڑ لیا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے 1857 کی جنگ آزادی پر پہونچا۔
1857کی جنگ آزادی جب چھڑی تو اس وقت کے علماء نے بھی متحد ہوکر ایک امیر کے ماتحت رہ کر انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں اپنا بھی حصہ ڈالا۔ اور شاملی کے میدان میں انگریزوں سے زبردست ٹکر لی۔ اگرچہ شاملی کے میدان میں علماء کو اسباب کی قلت کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی ۔ لیکن اس کے نتائج بہت مثبت مرتب ہوئے۔ اور جنگ آزادی میں ایک نئی روح پڑ گئی۔ شاملی کی جنگ آزادی کے نتیجے میں علماء انگریزوں کی نظر میں چبھنے لگے۔ اور انگریزوں نے بہت سے علماء کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ نکالے۔ اس وارنٹ کی وجہ سے بہت سے علماء نے ہجرت کو ترجیح دی۔ اور وہ علماء ہجرت کرکے مکہ معظمہ یا دوسرے اسلامی ممالک کی طرف ہجرت کرگئے۔ شاملی کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ آزادی کے امیر حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی نے مکہ کی طرف ہجرت کی۔ لیکن شاملی کے مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے ذہن میں مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی قدروں کو بچانے کے لئے ایک الگ ہی ترکیب نے جنم لیا۔ حالانکہ اس مجاہد کے خلاف بھی گرفتاری کا وارنٹ تھا۔ لیکن انہوں نے ہندوستان میں رہ کر ہی مسلمانوں کے ایمان واسلام کے بچانے کی فکر کی۔اور اس کے نتیجے میں انہوں نے ہندوستان میں مدارس کی بنیاد ڈالنے کا سوچا۔او رہندوستان کے مختلف علاقوں میں مدارس کی بنیادیں ڈالی۔اس مجاہد کی فکروں کا اور اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ آج برصغیر پاک وہند اور دنیا کے دوسرے مختلف علاقوں میں مدارس قائم ہے ، اور اس وقت انہی مدارس کی بدولت ہمارے اس برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کو ایک نئی زندگی ملی۔ ورنہ انگریز نے تو پوری کوشش کرڈالی تھی اس خطے سے اسلام کو مٹانے کی۔
اس مجاہد کا نام نامی اسم گرامی تھا حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ۔ اس مرد مجاہد نے دیوبند جیسی ایک چھوٹی سی بستی میں ایک مدرسے کی بنیاد ڈال کر انگریزوں کی نیندیں حرام کردی تھی۔ اور اس مدرسہ نے آگے چل کر ہندوستان کی جنگ آزادی کو ایک نیا موڑ دیا۔ اسی مدرسے کے ایک روحانی فرزند شیخ الہند مولانا محمو الحسن گنگوہی ؒ نے ریشمی رومال کی تحریک چلا کر انگریزوں کی چولیں ہلا ڈالی تھی۔ اور جب پاکستان کی تحریک اٹھی تو اسی مدرسے کے ایک سپوت شیخ الاسلام مفسر قرآن حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دے کر پاکستان کی تحریک کی کشتی کو کامیابی کے ساحل لاکر کھڑا کردیا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ اگر محمد علی جناح کو مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ جیسا قادر الکلام مقرر نہ ملتا تو پاکستان کی تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی۔
اصل میں تو مجھے آپ کو اس جنگ آزادی کے حوالے سے حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کا ایک چھوٹا سا واقعہ سنت رسول ﷺ کی پیروی کے حوالے سنانا تھا۔ کہ جب حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری ہوا تو اس وقت بھی مولانا قاسم نانوتویؒ سر عام ہرجگہ گھومتے رہتے تھے،تو مولانا کے دوستوں اور گھر والوں کو بڑی فکر لگی رہتی تھی کہ مولانا کے گرفتاری کا وارنٹ ہے اور یہ سر عام ہر جگہ گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ تو دوستوں نے اور گھروالوں نے حضرت مولانا کو سمجھایا کہ آپ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ ہے تو آپ اس طرح سرعام مت گھوما کریں اور کسی جگہ روپوش ہوجائے۔دوستوں اور گھروالوں کےاصرار پر حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ روپوش ہوگئے ۔لیکن پھر تین دنوں کے بعد حضرت مولانا باہر نکل آئے تو دوستو ں اور گھروالوں نے کہا کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں ؟ آپ روپوش ہی رہے، تو اس وقت اس عاشق رسول ﷺ نے بڑا ہی عاشقانہ جواب دیا کہ مجھے حضور اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ میں صرف تین دن روپوشی ملتی ہے کہ حضور اکرمﷺ ہجرت کے سفر میں تین دن ہی غار ثور میں روپوش رہے تھے۔ اس لئے قاسم کے کچھ بھی ہوجائے لیکن وہ تین دن سے زیادہ روپوش نہیں رہ سکتا۔
یہ تھے ہمارے اکابرؒ جو اپنے ایک ایک عمل میں سنت رسول ﷺ کی مکمل پیروی کرنے کی کوشش کرتے تھے، اور آج ہم ان کے نام لیوا ہیں ، لیکن ہماری زندگی کے ہر شعبے سے ہم سنت رسول ﷺ کے جنازے نکال رہے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح توفیق دے اور سنتوں پر عمل کرنے کی ہمت وتوفیق عطا فرمائے۔
Bookmarks