تعلیم مکمل کرنے اور کچھ عرصے تک ادھر اُدھر کے دھکے کھانے کے بعد بالآخر ہمیں ایک جگہ نوکری مل گئی۔ یہ ایک سیٹھ صاحب کی ایڈورٹائزنگ ایجنسی تھی جس میں ہمارے سمیت کُل چار آدمی کام کر رہے تھے۔ تین لڑکے تو ڈیزائننگ کے شعبے سے وابستہ تھے، جب کہ ایک ہمارا مینیجر تھا۔ اس کی عمر کوئی انتیس تیس سال رہی ہوگی اور یہ چار سال سے اسی جگہ ملازم تھا۔ جوان آدمی، مگر انتہائی بااصول اور سخت قسم کا بندہ تھا۔ یہ ہمارے کمرے میں ہی بیٹھا کرتا تھا اور اس کی موجودگی میں ہم سب کا ناطقہ بند رہا کرتا تھا۔ مجال ہے جو کسی ہڑتال میں بھی ناغہ کرجائے۔ خود بھی وقت پر آتا اور ہم پر بھی سختی رہتی۔ ہم لوگ بھی دن بھر چپ چُپاتے کمپیوٹر کے سامنے مشغول رہا کرتے۔ یہ باتیں بھی بہت کم اور صرف ضرورتاً کیا کرتا اور ہمیں بھی ایسا ہی حکم تھا۔ ان کے تو فون بھی نہیں آیا کرتے تھے۔ صبح سے جو یہ آفس آتا تو دیر تک یہیں بیٹھا رہتا اور ہم لوگوں کا عام خیال تھا کہ اس کے گھر والے اس سے محبت نہیں کرتے۔
پھر اچانک ایسا ہوا کہ فون پر ان کے لیے عجیب و غریب کالیں آنا شروع ہوگئیں۔ یہ فون اٹھاتے اور کچھ اس قسم کی گفتگو کرنے لگتے: "جی میں نے بی کام کیا ہے، ایم بی اے کر رہا ہوں، 35 ہزار تخواہ ہے، نہیں گاڑی نہیں ہے، دفتر کا نام مجید انٹرپرائز ہے، جی ہاں وہی ڈاکخانے کے سامنے، جی گھر تو میں آٹھ نو بجے تک پہنچتا ہوں، جی جی دو بجے آسکتے ہیں لنچ ٹائم میں ۔ ۔ ۔ " فون اٹھتا اور یہ بیچارے اپنا بائیو ڈاٹا بیان کرنا شروع کردیتے۔
میں کئی ہفتوں سے یہ مشق دیکھ رہا تھا۔ اچھا بھلا ہمارا سخت گیر مینیجر اچانک سے چغد نظر آنے لگتا۔ پہلے پہل میں سمجھا کہ غالباً یہ دوسری نوکری کا معاملہ ہے مگر پھر نجی باتوں کا ذکر کچھ اور سوچنے پر مجبور کردیتا۔
پھر ایسا ہوا کہ ایک روز کھانے پر مجھے مینیجر بڑے اچھے موڈ میں مل گیا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ بھائی یہ آج کل کس قسم کے فون آتے رہتے ہیں۔ مینیجر بھی غالباً موڈ میں تھا، ہنس کر بولا:
"بھائی یہ میری شادی کا چکر ہے، انکوائریاں ہورہی ہیں۔"
"انکوائری؟" میں حیران رہ گیا۔
"یار میں میمن ہوں نا۔ ہمارے ہاں شادی کا طریقہ کچھ الگ ہے۔"
اب میرا تجسس بڑھا۔ "کچھ پتہ بھی تو چلے!" میں نے پوچھا۔
"یار ہمارے ہاں رشتہ طے ہونے کا ایک پورا پراسیس ہے۔" مینیجر بھی گفتگو کے موڈ میں تھا۔ "تمہارے ہاں تو رشتہ کا سادہ سا طریقہ ہے۔ لڑکی پسند کی، پھر گھر والوں کے ہاں پیغام بھیج دیا۔"
"ہاں، بالکل۔"
"ہمارے ہاں یوں نہیں ہوتا۔ ہم لوگ معاملات ایک 'مڈل وومین' کے سپرد کر دیتے ہیں جس کو بروکر کہا جاتا ہے۔ لڑکے والے اپنی پسند ناپسند اس کے پاس رجسٹر کروا دیتے ہیں۔ پسند ناپسند میں لڑکی کی خصوصیات اور جہیز وغیرہ کی ڈیمانڈ شامل ہوتی ہے۔"
پھر مینیجر نے طویل طریقۂ انتخاب پر روشنی ڈالی:
"اب بروکر کو جب ایسی مناسب لڑکی ملتی ہے جو ان شرائط پر پورا اترتی ہے، تو وہ لڑکے والوں کو اس سے مطلع کر دیتی ہے۔ اب دونوں گھرانوں کے بیچ ملاقاتوں کے کچھ چکر چلتے ہیں:"
پہلا چکر:
لڑکی کا والد لڑکے سے ملنے اس کے گھر آتا ہے۔ لڑکا والد سے ملتا ہے مگر اسے گھر میں لانے کی اجازت نہیں چنانچہ باہر سے ہی ٹرخا دیا جاتا ہے۔ باپ کھڑے کھڑے مل کر روانہ ہوجاتا ہے۔
دوسرا چکر:
اس چکر میں لڑکے کی ماں لڑکی کے گھر جاتی ہے۔ یہ لڑکی سے ملاقات کرتی ہیں۔ چونکہ یہ عورتوں کا معاملہ ہے، اس لیے انہیں گھر میں گھسا لیا جاتا ہے۔
تیسرا چکر:
لڑکی کی رشتہ دار خواتین بمعہ والدہ لڑکے کے گھر جاتی ہیں اور وہاں کی خواتین سے ملاقات کرتی ہیں۔
چوتھا چکر:
لڑکے کی رشتہ دار خواتین بمعہ والدہ لڑکی کے گھر جاتی ہیں اور ان کی خواتین سے ملاقات کرتی ہیں۔
پانچواں چکر:
اب لڑکے کی انکوائری کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں جاسوس حضرات لڑکے کے دفتر اور احباب سے ان کے متعلق چھان بین کرتے ہیں۔
اس چکر تک رشتہ کسی بھی وقت منقطع کیا جاسکتا ہے اور دونوں جانب سے استعمال کی جانے والی تواضع کی اشیاء مثلاً مشروبات، پیٹیز، سموسے وغیرہ مکمل ضائع ہوجاتے ہیں۔
چھٹا چکر:
اب دونوں خاندان والے لڑکی کے گھر پر اکٹھا ہوتے ہیں۔ اس دفعہ لڑکا بھی ساتھ ہوتا ہے۔ اس موقع پر لڑکی اور لڑکے کو کچھ دیر خلوت فراہم کی جاتی ہے تاکہ ایک دوسرے کو جان سکیں تاہم یہ خیال رہے کہ یہ رسمی ملاقات ہوتی ہے اور اس موقع پر بات پکی ہوچکی ہوتی ہے۔
یہ سلسلۂ چکر "بانٹوا میمن" برادری سے اخذ کردہ ہے۔ دوسری جماعتوں میں کم یا زیادہ چکر چل سکتے ہیں مثلاً کسی چکر میں جملہ خواہشمندوں کی تصاویر کا تبادلہ ممکن ہے۔
اس سارے معاملے مں جو لایقِ تحسین بات ہے وہ یہ ہے کہ لڑکی کی بے پردگی نہیں کی جاتی۔
تاہم میمن برادی کی ان شادیوں کا ایک بہت ہی خوفناک پہلو "جہیز" سے متعلق ہے۔ ویسے تو یہ برائی ہماری پوری قوم میں ہی سرایت کرگئی ہے تاہم یہاں یہ بہت ہی زیادہ بڑھا لی گئی ہے۔
جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا، بروکر حضرات کو لڑکے کی تفاصیل اور نقائص و فوائد سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لڑکے کی جیب جتنی زیادہ پھولی ہوئی ہوگی، اتنے ہی زیادہ ذی حیثیت خاندان میں اس کا گھسنا ممکن ہوگا۔ لڑکی والوں سے بھاری بھرکم جہیز کا حصول ان شادیوں کا خاصہ ہے، تاہم لڑکے کی تنخواہ ہی سے جہیز کی مالیت کا تعین ہوگا۔
مثلاً آج کے حالات کے تحت ایک تیس ہزار روپے پانے والا لڑکا آرام سے 30 لاکھ روپے مالیت کے گھر کی امید باندھ سکتا ہے۔
جہیز میں لڑکی فلیٹ یا مکان لے کر آتی ہے۔ اس میں فلیٹ کا تمام ضروری سامان بھی بشمول ہے مثلاً فریج، ٹی وی، ڈنر سیٹ، پنکھے، اے سی، مائیکروویو، وی سی آر، کیسٹ پلیئر، فرنیچر، صوفہ سیٹ، بیڈ سیٹ اور نجانے کیا کیا کچھ۔ بیشتر لوگ فریج کو بھی بھَر کر دیتے ہیں۔ شادی کے بعد لڑکا منہ بھی لڑکی کے ٹاول سے پونچھتا ہے۔
بہت سی دفعہ زیرو میٹر موٹر سائیکل بھی پیکج کا حصہ ہوتی ہے جس کو لڑکی کے والد بنفسِ نفیس سوزوکی پک اپ میں لدوا کر گھر پہونچاتے ہیں۔ ان کو اسے چلانے کی اجازت نہیں کیوں کہ اس سے بائیک "زیرو میٹر" نہ رہے گی۔
جہیز کی یہ بیش بہا مجبوری بڑی سنگدل ہے۔ کتنی ہی لڑکیاں ایسی ہیں جو گھروں میں صرف اسی وجہ سے بِن بیاہی بیٹھی رہ جاتی ہیں کہ ان کے والد کی وہ حیثیت نہیں۔ ان شادیوں کا یہ پہلو بہت ہی ظالمانہ ہے۔
مینیجر شادی کی یہ تفاصیل تو روانی میں بتا گیا مگر میرے لیے سوچ کا بہت سا سامان چھوڑ گیا۔ ہم لوگوں نے شادی کے معاملات کو کتنا گھمبیر، پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے کہ اس سنت کی انجام دہی ہم پر بڑی بھاری ہوکر رہ گئی ہے۔
Bookmarks