بسم اللہ الرحمن الرحیم
[RIGHT]اللہ نے جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں ان سب کے کچھ نہ کچھ فوائد انسان ضرور حاصل کرتا ہے وہ حیوان و نباتات ہی کیوں نہ ہوں مگر ایک ایسی چیز بھی ہے جو انسان کی زندگی کے لیئے انتہائی اہم و لازم ہے اور ہم انسان اُسی نعمت کا اسراف بہت زیادہ کرتے ہیں اور وہ نعمت ہے پانی کی کہ جس سے انسان کی ابتداء کی گئی تھی
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔ الفرقان:آیت:۵۴
مگر افسوس کہ ہم آج اس پیاری نعمت کی قدر نہیں کرتے اور اس کو ضائع کرتے رہتے انفرادی اور اجتماعی طور پر، اگر پانی ہمیں خریدنا پڑے تو یقیناً ہم اس کا بھی اسراف کرنا برداشت نہ کریں گیں جیسا منرل واٹر کو ضائع نہیں کرتے،آخر ایسا کیوں ہے کہ جو چیز ہمیں بغیر محنت اور پیسہ خرچ کیئے مل جائے ہم لوگ اس کی قدر نہیں کرتے؟؟؟؟ یہاں مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا ہے کہ ہم لوگ کشمیر کی وادی میں ایسی جگہ پر تھےجہاں نزدیک نزدیک پانی موجود نہیں تھا بلکہ پانی لانے کے لیئے اچھا خاصہ مشکل سفر کرنا پڑتا تھا آپ لوگ یقین کریں ایک لوٹا پانی سے ہم تین تین ساتھی وضو کرتے تھے اور ایک دفعہ میرے ساتھ ایسا بھی واقعہ پیش آیا کہ میرا منہ خلق تک خشک ہوگیا تھا زبان ایسے محسوس ہوتی تھی جیسے لکڑی کی بنی ہوئی ہے وہ بہت تکلیف دے حالت تھی، گو کہ ان واقعات سے پہلے گھر میں بھی ابا جان پانی ضائع کرنے سے منع کرتے رہتے تھے مگر صحیح نصیحت ان واقعات کے بعد ہوئی، اصل میں ہم لوگ مفت کی نعمت کی قدر نہیں کرتےاگر وہی نعمت ہمیں روپے پیسے خرچ کرکے حاصل کرنی پڑےتو ہم کسی قیمت پر اس کو ضائع نہ کرتے۔
میں سمجھتا ہوں جس کو قیامت کے دن پر کامل یقین ہے وہ اس نعمت کا اسراف ہرگز نہیں کرئے گا کیونکہ اللہ نے قیامت کے دن ہر نعمت کے بارے حساب لینا ہے،
اللہ کا راشاد ہے کہ
ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ Ďۧ
پھر تم سے ضرور بالضرور پوچھ ہونی ہے اس دن ان نعمتوں کے بارے میں۔ التکاثر:۸اور اسی آیت کی تفسیر احادیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی (ثُمَّ لَتُسْ َ لُنَّ يَوْمَى ِذٍ عَنِ النَّعِيْمِ) 102۔ التکاثر : 8) تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس دو ہی تو چیزیں ہیں پانی اور کھجور۔ پھر ہم سے کن نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا؟ دشمن حاضر ہے اور تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا یہ نعمتیں عنقریب تمہیں ملیں گی۔ جامع ترمذی:جلد دوم:باب: سورۃ تکاثر کی تفسیر
پانی کے اسراف کی ممانعت میں احادیث موجود ہیں مثلاً
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِسَعْدٍ وَھُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَاھٰذَا السَّرَفُ یَا سَعْدُ قَالَ اَفِی الْوُضُوْءِ سَرَفٌ قَالَ نَعَمْ وَ اِنْ کُنْتَ عَلَی نَھْرٍ جَارٍ۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضوء میں اسراف بھی کر رہے تھے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) فرمایا " اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ " حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔" (مسند احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
مشکوۃ شریف:جلد اول:باب:وضو کی سنتوں کا بیان
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔
سنن ابن ماجہ:جلد اول:باب:وضو میں میانہ روی اختیار کرنے اور حد سے بڑھنے کی کراہت
ان احادیث سے واضح ہوا کہ وضو کرتے وقت بھی پانی کے اسراف سے بچنا لازم ہے اور بےشک وضو دریا کے کنارے کیا جائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہم لوگ وضو کرتے وقت بھی بہت زیادہ پانی ضائع کرجاتے ہیں،
پانی ضائع کرنے کے چند مواقع
وضو سے پہلے مسواک کرتے وقت پانی کا نَل::ٹوٹی:: کھلی رکھنا۔
ایک عضاء::ہاتھ، منہہ، بازو،پاؤں::دھوتے وقت پانی کا ضرورت سے زیادہ بہانا۔
بعض صابن سے ہاتھ اور منہہ دھوتے ہیں تو صابن لگاتے وقت پانی کھُلا رکھنا۔
غسل کرتے وقت جب صابن لگایا جاتا ہے تو نَل کھُلا رکھنا۔
[B][U][FONT=Alvi Nastaleeq][SIZE=5][COLOR=#ff0000][FONT=Alvi Nastaleeq][COLOR=#ff0000]
Bookmarks