بھوک سے مرتے انسان اور ہماری ذمے داریاں
کوئی دن نہیں جاتا کہ میڈیا پر خبر نہ آتی ہو کہ فلاں جگہ بھوک و افلاس کے ہاتھوں تنگ آ کر ماں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا، باپ نے خودکشی کر لی ، تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگاری اور غربت سے اتنا تنگ ہوا کہ لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کو پیشہ بنا لیا، مسلمانوں کے اندر ان چیزوں نے اس کثرت کے ساتھ کبھی راہ نہیں پائی تھی لیکن دین سے دوری، مادیت کے غلبے اور خوشحال طبقے کی اپنی ذمے داریوں سے فرار نے ورتحال کو یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے خودکشی جیسی حرام موت کو غریب والی زندگی ترجیح دے رہے ہیں۔ میڈیا پر آنے والی ایک خبر نے ہر صاحب دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے کہ بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر ایک بھائی اپنی بہن کو بیچنے نکل آیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ قریب ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچا دے، میرا موضوع اس وقت یہ نہیں ہے کہ ان افعال کی شرعی حیثیت کیا ہے، سب جانتے ہیں کہ خودکشی حرام ہے، بے غیرت اور دیوث(یعنی وہ شخص جِسے اپنی محرم عورتوں پر غیرت نہ آتی ہو)جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا وغیرہ، میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں ہماری ذمے داری کیا ہے، اور اِس سے پہلے اِس طرف توجہ دِلانا چاہتا ہوں کہ اِس اور اِس طرح کی دیگر تمام تر بُرائیوں کے ظاہر اور مروج ہونے کا اصل سبب اپنے دِینِ حق اِسلام کی اصل تعلیمات سے دُوری ہے ، جی ہاں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ہمیں یہ سمجھایا ہے کہ
تَرَی المُؤمِنِینَ فی تَرَاحُمِہِم وَتَوَادِّہِم وَتَعَاطُفِہِم کَمَثَلِ الجَسَدِ اذا اشتَکَی عُضوًا تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہَرِ وَالحُمَّی
"تُم اِیمان والوں کو آپس میں ایک دوسرے سے محبت ، رحمت ، اِحساس میں ایک جِسم کی طرح دیکھو گے کہ اگر کوئی ایک حصہ تکلیف میں ہوا تو سارا ہی جِسم بُخار یا بے آرامی (کی حالت میں اُس ایک حصے کی تکلیف )محسوس کرتا ہے " صحیح البُخاری /حدیث ۵۶۶۵/کتاب الادب /باب ۲۷)
اگر ہم لوگ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو جانتے ہوں اور اُن پر عمل پیرا رہیں تو ، اولاً تو معاشرتی کسمپرسی کی ایسی حالت ہونے ہی نہ پائے اور اگر کبھی ہو بھی جائےتو بھی اِک دُوجے کا اتنا آسرا اور پیار مُیسر ہو کہ حرام موت اپنانے ، یا اپنے عِزت و غیرت بیچنے ، یا کِسی کی عِزت ، جان مال پر ہاتھ ڈالنے کی نوبت نہ آئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ظاہر و باطن کی اصلاح فرمائے ،
اِمام مسلم نے اپنی صحیح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کر یہ فرمان نقل کیا ہے:
دَخَلَت امرَاۃ النَّارَ فِی ہِرَّۃ رَبَطَتہَا فَلا ھیَ اطعَمَتہَا ولا ھیَ ارسَلَتہَا تَاکُلُ مِن خَشَاشِ الارض حَتیَ مَاتَت ہَزلًا
" ایک عور ت ایک بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جِسے اُس عورت نے باندھ رکھا تھا ، نہ اُسے کچھ کِھلاتی تھی اور نہ ہی کھولتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑوں مکوڑوں میں سے کچھ کھا لیتی ، یہاں تک کہ اِسی لا پرواہی میں وہ بلی مر گئی" صحیح مسلم /حدیث ۲۶۱۹/کتاب التوبہ /باب ۴)
اس حدیث پر سرسری طور سے نہ گزر جائیے، یہ اس قسم کی ضعیف احادیث میں سے نہیں ہے جو عام طور پر فضائل یا ترغیب و ترھیب کی کتابوں میں مل جاتی ہیں، اس حدیث کو اِمام مسلم نے صحیح مسلم میں روایت کیا ہے اور اہل سنت و الجماعت کے تمام مکاتب فکر متفق ہیں کہ صحیح مسلم کی تمام روایات صحیح ہیں۔کتنی عبرت کا مُقام ہے کہ اللہ کو اُس عورت پر ایک جانور پر ظُلم کرنے ، اوراُس کی حق تلفی کرنے کی وجہ سے اتنا غُصہ آیا کہ اُس عورت کو جہنمی قرار دے دیا ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ آخرت میں ہمارا کیا حشر ہو گا جن کے سامنے جانور نہیں زندہ سلامت انسان بھوک و افلاس کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں اور ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، کتنے ہی غیر ضروری معمولاتِ زندگی ایسے ہیں کہ ہم ان میں ذرا سی تبدیلی پیدا کر لیں تو ہم کئی انسانوں کی کفالت کا سبب بن سکتے ہیں لیکن شاید ہمارے اندر سے آخرت کی جوابدہی کا احساس جاتا رہا ہے، کتنے ایسے اجتماعات ہیں جو سراسر اللہ کی نافرمانی پر مشتمل ہوتے ہیں لیکن ان پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہا دیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف اللہ کی مخلوق ایک لقمے کے لیے ترس رہی ہوتی ہے، میوزیکل شوز اور فحاشی کے دوسرے پروگرامز میں تو یہ شیطانی کام ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دِین میں اضافہ کردہ بدعات اور رسومات پر اتنی فضول خرچی کی جاتی ہے جس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کاموں سے منع فرمایا ہے
وَآتِ ذَا القُربَی حَقَّہُ وَالمِسکِینَ وَابنَ السَّبِیلِ وَلاَ تُبَذِّر تَبذِیراً
"اور "رشتہ دار ، اور غریب اور مُسافر کو اُس کا حق دو اور فضول خرچی نہ کرو بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں" ( سورت الاِسراء آیت ۲۶)
اِسلام میں جانداروں کے حقوق کی حفاظت اور ادائیگی ہی نہیں بلکہ اُن کی تکلیف و سختی کو دُور کرنے کا بہت مُقام و رُتبہ ہے اور اِس کی تعلیم دی گئی ، اور اِس پر عمل کرنے والوں کو اللہ نے اپنے بُزرگی والے بندے قرار دِیا ہے اور اُنہیں اپنی جنت میں داخل ہونے والا قرار دیا ہے اور اِس داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بیان فرمایا
وَیُطعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہِ مِسکِیناً وَیَتِیماً وَاَسِیراً
[color="Blue"]" اور وہ لوگ اللہ کی مُحبت میں غریبوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں"[/COLOR
]اور اپنے اُن بُزرگی والے جنتی بندوں کے الفاظ کے طور پر یہ بھی بیان فرمایا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں
انَّمَا نُطعِمُکُم لِوَجہِ اللَّہِ لَا نُرِیدُ مِنکُم جَزَاء وَلَا شُکُوراً
"(اور اُن کے دِلوں میں یہ ہوتا ہے کہ ) ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھانا کھلا رہے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریے کے طالب ہیں " سورۃ الاِنسان (الدھر) /آیت ۸،۹)
اس کے بالمقابل اہلِ جہنم جن جرائم کی پاداش میں جہنم میں پھینکے گئے اس کی کچھ تفصیل یوں بتائی گئی ہے "وہ (جنتی لوگ) جنتوں میں ہوں گے، مجرموں سے پوچھتے ہوں گے تمہیں کیا چیز جہنم میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نمازادا نہیں کیا کرتے تھے، اور نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے اور بے ہودہ شکوک و شبہات پیدا کرنے والوں کے ساتھ ہم بھی لگے رہتے تھے اور روز جزا کو جھٹلایا کرتے تھے یہاں تک کہ ہمیں موت آ گئی(، پس انہیں شفاعت کرنے والوں کی شفاعت کچھ فائدہ نہ دے گی" (سورت المدثر آیت ۴۰ تا ۴۸)
اس آیت میں اہل جہنم کے چار بڑے جرائم مذکور ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ضروری نہیں کہ بھوکا مسلمان ہو تبھی اسے کھانا کھلایا جائے بلکہ وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہواگر بھوکا ہے تو انسان ہونے کے ناطے اس کا یہ حق ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے، اگر ننگا ہے تو اسے کپڑا دیا جائے یا اگر بیمارہے توا س کا علاج کیا جائے، البتہ اگر وہ مسلمان ہے یا رشتہ دار ہے تو کِسی بھی دوسرے اِنسان کی نسبت اُس کا حق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
Bookmarks