MASHELEY RAH said:
سونامی کا کچرا اسلامی نظام نہیں لاسکتامظفر اعجاز
ایک بار پھر یہ بات طے ہوگئی، ثبوت مل گیا کہ پاکستانی عوام اس ملک میں صرف اور صرف اسلامی نظام چاہتے ہیں۔ پھر انہیں انصاف، خوشحالی، امن، روزگار اس کی برکت سے ملنے ہیں۔ چنانچہ تحریک انصاف کا جو سونامی کئی روز سے کراچی کی بندرگاہ سے ٹکرانے والا تھا، پورے زور سے آیا اور کئی سیاسی جماعتوں کا کچرا بھی ساتھ لے آیا۔ عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات مفت فراہم کریں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اب اسلام کے نفاذ کا دعویٰ کرنے والے ایک اور سیاست دان کا اضافہ ہوگیا۔ کئی لوگوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس وقت فضا عمران خان کے حق میں ہی، اس لیے ان کے بارے میں لکھنے میں احتیاط برتیں، بلاوجہ تنقید کریں گے تو آپ کی ساکھ متاثر ہوگی۔ یہاں تک کہ عمران خان کے ساتھ ہونے والی نشست میں ہمیں اس لیے نہیں بلایا گیا کہ کہیں کوئی ایسا ویسا سوال نہ کردیں.... بہرحال ہم تو سونامی کے بارے میں بات کریں گے۔ ہم نے انڈونیشیا جاکر سونامی کی تباہ کاریاں دیکھی ہیں، اس لیے اندازہ ہے کہ بڑے بڑے بیڑے الٹ جاتے ہیں، بھاری بھاری جہاز تنکوں کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ سونامی کے ساتھ سمندر سے کچرا آتا ہی، اور جب تیز رفتار پانی واپس جاتا ہے تو باہر صرف کچرا رہ جاتا ہے۔ اکتوبر میں لاہور میں ایک جلسہ ہوا، اور ایسا لگا کہ اب جلسوں کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ لیکن میڈیا نے بھرپور تعاون کیا، اور ایسا تاثر قائم کردیا کہ اب صرف تحریک انصاف آرہی ہے۔ نوجوان قیادت، نوجوانوں کو آگے لانے اور قیادت دینے کا نعرہ لگاتے لگاتے عمران خان خود 61ویں برس میں داخل ہوگئے ہیں۔ لیکن انہوں نے نوجوانوں کو اپیل کرکے 60 برس سے زائد عمر کے لیڈروں کو پارٹی میں لینا شروع کردیا ہے۔ جاوید ہاشمی نے پنجاب یونیورسٹی کی صدارت سے سیاست میں اپنا مقام بنایا، پھر مسلم لیگ کے ساتھ طویل رفاقت رکھی، اورکٹھن ترین حالات میں استقامت کی علامت بنے رہے۔ جب میاں نوازشریف ملک سے مک مکا کرکے گئے تھی، اُس وقت پاکستان میں صرف جاوید ہاشمی ڈٹے ہوئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ صرف اسلامی جمعیت طلبہ کی تربیت تھی جس نے انہیں ڈٹ جانے کی ہمت دی۔ لیکن عمر کے اس حصے میں جب ان کو کئی بیماریوں نے بھی گھیر رکھا ہی، چال میں لڑکھڑاہٹ ہے اور زبان میں بھی.... وہ نوجوان قیادت کے نعرے لگانے والی تحریک انصاف میں چلے گئے۔ اپنے دور میں مسلم لیگ (ن) اور نوازشریف کی نمائندگی کرتے رہی، وزارتیں چلاتے رہی، دوتہائی اکثریت والی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی رہی، لیکن قوم کو تعلیم، صحت، انصاف اور امن نہیں دے سکی.... اب کیا دیں گی؟ یہ تو وقت بتائے گا۔ فی الحال تو وہ باغی ہیں۔ عمران نے وعدہ پورا نہیں کیا تو پھر بغاوت کردیں گے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے علاوہ ملتان کے ایک اور مخدوم بھی تحریک کے سونامی کے ساتھ کراچی آئی، یعنی مخدوم شاہ محمود قریشی۔ وہ جنرل ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ سے سفر کرتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کے در تک پہنچے۔ مجلس شوریٰ، وزارت، زرداری کی وزارتِ خارجہ میں ملک کے لیے انہوں نے کیا کیا؟ ہاں ہلیری کلنٹن کے ساتھ اس قدر سر جوڑا کہ دونوں کی بیماریاں ایک دوسرے کو منتقل ہوگئیں۔ ہلیری وزیرخارجہ اور مخدوم صاحب پارٹی سے خارج ہوگئے۔ شاید جوئیں ان کے سر میںآگئیں۔ ....ان کے ساتھ ساتھ جنرل پرویزمشرف کے قریبی ساتھی، اُن کے وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری بھی تحریک انصاف کے سونامی کے ساتھ آئے تھے۔ یہ بھی 60 کے پیٹے میں ہیں، ممکن ہے 70 کی حدوں کو چھو رہے ہوں۔ انہوں نے بھی کئی حکومتیں بھگتائی ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں یہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی حمایت میں فضا بنانے میں مصروف تھی، کہتے تھے کہ کیا حرج ہے اگر اسرائیل سے تعلقات ہوجائیں۔ اس پر ایک اسلام پسند صحافی نے بڑے اطمینان سے کہا تھاکہ حقائق تو یہی ہیں، معیشت مضبوط ہونی چاہیی، آپ اسرائیل سے تعلقات کا اعلان کردیں۔ وہ تو بھلا ہو ”بزنس ریکارڈر“ کے مالک و بانی ایم اے زبیری مرحوم کا، انہوں نے کہا کہ یہ صرف فارن پالیسی کا مسئلہ نہیں ہی، مسلمانوں کی غیرت اور ایمان کا بھی معاملہ ہی.... کیا سوچ رہے ہو تم لوگ! تو بات اِدھر اُدھر ہوگئی، ورنہ خورشید محمود قصوری صاحب تو اسرائیل سے تعلقات کی فضا بنارہے تھے۔ بہرحال اب وہ عمران خان کی اعلان کردہ اسلامی فلاحی ریاست کے منصوبے میں اہم کردار ادا کریں گی، نیچے امریکی اسکولز کی زنجیر چلائیں گے جو مغربی ذہن سازی کرے گی اور اوپر اسلامی فلاحی ریاست بنارہے ہوں گے۔ سونامی کے ساتھ تاریخ کے کوڑے دان سے اور بھی شخصیات نکل کر آئی ہیں۔ ان میں میاں محمد اظہر بھی ہیں۔ وہ جنرل ضیاءکے بھی آدمی تھے۔ انہوں نے طویل عرصہ گورنری کی، اور صرف ایک اچھا کام کیا کہ خود گورنر کا عہدہ چھوڑ دیا، ورنہ کون چھوڑتا ہے گورنری! اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں ان کا کیا حصہ ہوتا ہے اِس کا فیصلہ وقت کرچکا.... اب تو جنرل پرویز کی کمی ہی، ان کی ٹیم پہنچ گئی ہے۔ ہم تو عمران خان کے بارے میں بھی کچھ نہیں کہتے کہ وہ کس طرح اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں گی، جب کہ وہ تو کہتے ہیں کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں گورنر کا قاتل ہیرو بن جاتا ہے۔ شاتمِ رسول عورت کو بے گناہ قرار دینے اور اسے رہا کرنے کا اعلان کرنے والے کو اگر قانون گرفت میں نہ لے رہا ہو اور ایمان کی پکار پر کوئی فیصلہ کرڈالے تو اُسے عمران خان برا کہتے ہیں۔ عمران صاحب ہیرو تو وہی ہوگا جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر جان دینے کو تیار ہوگا۔ اسرائیل سے تعلقات بنانے والے تو ہیرو نہیں ہوں گے۔ بہرحال اسلام کا نعرہ لگانا ان کی بھی مجبوری ہی، ورنہ انہیں پتا ہے کہ اسلام کا نام لینے والی جماعتیں بھی جلد ایک پلیٹ فارم پر ہوں گی۔ ویسے ایک بات اب سمجھ میں آگئی کہ قصور کے جلسے میں کرسیاں کیوں اٹھالی گئیں۔ اگر کراچی میں بھی یہی کرلیا گیا ہوتا تو تحریک انصاف کے اسٹیج سے بولے گئے جھوٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جھوٹ پر پردہ پڑا رہتا۔ قصور میں کوئی کرسیاں نہیں گن سکا، کراچی میں کرسیاں رہ گئیں تو یار لوگوں نے گنتی کرڈالی۔ کم از کم تین معتبر ذرائع نے یہ تعداد 15 ہزار بتائی ہے۔ ایک ظالم تو کہتا ہے کہ میں تین بجے سے وہاں تھا، 7ہزار سے زیادہ کرسیاں تھیں ہی نہیں۔ اب کرسیوں کے آگے پیچھے کتنے لوگ تھے خود حساب لگالیں۔ دوپہر کو ٹی وی سے خبر ملی کہ 30 ہزار کرسیاں ہیں۔ شام کو اسی ٹی وی نے 40 ہزار بتائیں اور جلسہ شروع ہونے تک 60ہزار بتانے لگے۔ جلسہ گاہ کی گنجائش پہلے دو لاکھ بتائی گئی، پھر ڈھائی لاکھ، اور جلسے کے اختتام پر حاضرین کی تعداد 5 لاکھ بتائی گئی۔ اور جلسہ گاہ 35 منٹ میں خالی تھی۔ اٹھائیے کیلکولیٹر، نکالیے حساب، سارا سونامی سامنے آجائے گا۔
Bookmarks