بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ابو عمر ….. میڈیا مجاہد کاکس قدرنرالا اورشاندارکام تھا

تحریر: ابوعمر کا ایک محبوب(اسلامی شموخ نیٹ ورک فورم)

اردو ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم


الحمد لله رب العرش العظيم , ثم الحمد لله رب العالمين , ثم الحمد لله ناصر المستضعفين , والصلاة والسلام على خير الأنام , محمد القائد المجاهد القائل لحسان بن ثابت رضي الله عنه : ((اهج قريشاً فإنه أشد عليهم من رشق النبل((
21دن پہلے میں نے جہادی ویب سائٹوں پر عالمی اسلامی میڈیامحاذ کی قیادت عامہ میں موجودبھائیوں کی طرف سے نشر ہونے والا ایک بیان پڑھا، جس میں جہادی میڈیاکے بہادر ہیروں میں سے ایک بہادرہیرو کی سیرت کا تذکرہ کیا گیا۔
بلاشبہ وہ بھائی عبد المعيد بن عبد السّلام "ابو عمر" ہے۔ اللہ ان کو قبول فرمائے اورہم سب کوبھی ان سے جاملائے۔
جب میں نے اس بیان والی پوسٹ پرجواب دینے والوں کی تعداد کو گنا تو وہ 61 سے زیادہ تھے۔پس ہمیں کیاہوگیا ہے کہ ہم اس بہادر ہیروکی سیرت کی نصرت کے لیے میڈیا کا جہاد کیوں نہیں کررہے اور ان کی مددکیوں نہیں کررہے اور ان کے لیے دعائیں کیوں نہیں مانگ رہے؟
کیا اس وجہ سے کہ اس مجاہد نےاپنے ہاتھ سے ak74 اٹھا کر پاکستان مرتدین پر گولیوں کے برسٹ نہیں مارے یا پھر اس وجہ سے کہ وہ خودّاراسلامی امارت افغانستان کی کسی سرحدپر محافظ نہیں تھا، یا پھرہم نے بہادر ابوعمر کی سیرت کو اس وجہ سے کوئی اہمیت نہ دی کہ وہ اسلامی مملکت عراق ــاللہ اسے عزت دے ــ کےسپاہیوں میں شامل نہیں ہواتھا؟ کیا ہم اس شیر کی سیرت پر اس وقت توجہ دیتے جب ہم یہ سنتے کہ انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ اسلامی صومال میں امیصوم (افریقی اتحادکی فورسز برائے تحفظ امن)کو مار بھگایا ہے۔
لیکن عالمی محاذمیں آپکے بھائیوں نے آپ کو یہ بتایا اور اس بات کی تاکید کی کہ عبدالمعید کوئی عام مجاہدنہ تھے بلکہ وہ اپنے کئی بھائیوں پرصلاحیتوں،شعوروادراک ،فہم اور زیرکی میں سبقت لے گئے تھے۔ہماراان کے بارے میں یہی گمان ہے اور ہم ان رحمہ اللہ کی پاکیزگی نہیں بیان کرتے۔
پس کس قدرعجیب اور شاندار تھا یہ شیر،اور کس قدر یہ نرالا اور عمدہ مومن تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث:
"اهج قريشاً فإنه أشد عليهم من رشق النبل"۔
’’قریش کی ہجوکرو کیونکہ ہجو ان کو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ ناگوارہے ‘‘
کو سنا تو ان سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ اس زمانے میں ہجوکے شہسواروں میں سے ایک شہسواربنے۔اس وجہ سے کہ اس زمانے میں اشعار اور ہجو کاانسانوں کے دلوں پر کافی گہرا اثرہوتا تھا جبکہ ہمارے دورمیں اس جیسا کرداراور اثر میڈیا کاہے، جس کی بنیادپر جنگوں کا پہیہ گھوم رہا ہے۔
جس وقت دشمن کوہماری آنکھوں کی ٹھنڈک مجاہدین کی ایک بہت تھوڑی سی تعداد کے ساتھ جنگ نے تھکا کررکھ دیا ،تواسے کوئی چیز سہارے کے لیے نہیں ملی اورنہ ہی اپنے آپ کو دلاسہ دینے کے لیے کچھ ملا، سوائے اس کہ وہ جھوٹ، دھوکہ بازی، پروپیگنڈے،حق کو باطل سے خلط ملط کرنا اورحقائق کوالٹ کربیان کرنا۔یہ سب کچھ دشمن نے اس لیے کیا کیونکہ اس نے جان لیا تھا کہ اگرمجاہدین کی آواز عام اندازمیں لوگوں تک پہنچ گئی تو اس سے ان کے دلوں پر گہرا اثر پڑے گا اورجہاد کواپنے مددگارکسی اور جگہ سے پہلے امریکہ کے اندر مل جائے گے۔
یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے کہ مجاہدین اس اجنبیت کے زمانے میں ابراہیم علیہ السلام کی توحید اورمحمد ﷺ کے اس دین کی مہم کو لیکرچلنے والے ہیں ، جس کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے۔
قُلْ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الأنعام162 -)
’’کہہ دیجئے!بیشک میری نمازاور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہیں۔‘‘
محمد ﷺ کودیا اسے لیکر چلنے والے لوگ ہیں۔
ابوعمر کی بصارت یہ تھی کہ دین کی مدد شرعی علم اورقتالی جہاد اور اس سے ملحق امورسے جڑنے اوراس کی حمایت کرنے سے ہوسکتی ہے۔پس اسی وجہ سے انہوں نے عیش وعشرت کی زندگی کوخیربادکہا اور پیچھے بیٹھے رہنے والی زندگی کو چھوڑا،اور اپنی تیاری کو مکمل کیا اور اس سے کم پر وہ راضی نہیں ہوئے کہ وہ ایک ایساتیر بن جائے کہ جس سے غاصب دشمن پر تیروں کی بوچھاڑ ہو اورظالم کفرکوشکست فاش سے دوچار کریں۔ ان کا زبانِ حال تو یہ تھا کہ اگر وہ پہرے میں ہیں تو پھر وہ پہریدار ہیں اوراگرجنگ کی پہلی صف میں ہے تو وہ پہلی صف کے سپاہی ہیں۔
پس اللہ نے ان کے لیے یہ مقدر کیا کہ وہ عالمی اسلامی میڈیا محاذ کے ایک رکن اورسپاہیوں میں سے ایک سپاہی کے طور پر ان کا انتخاب کیاجائے۔ میں یہاں انہیں اس اہم مورچہ پر نامزد کرنے کی خبر نقل کرتا ہو جیساکہ بیان میں آیا ہے:
’’ہمارا بہادر نوجوان اپنے بھائیوں کی طرف سے ہونے والےجہاد میں شریک ہونے کی غرض سے پاکستان آیا مگر قائدین نے ان کی صلاحیت اور مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے اور میڈیا میں کام کرنے کا تجربہ رکھنے کی وجہ سے انہیں یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ مجاہدین کیخلاف بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں ہونے والے میڈیا کی زبردست یلغار کا مقابلہ کرنے اور انہیں مادی ومیڈیا سپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی آواز جنگ کے میدان سے مسلمانوں تک پہنچانے میں اپنا کردار اداکریں۔‘‘
سوہمارے اس بہادرنے اس ذمہ داری کو کھلے دل کے ساتھ قبول کیا اور اسے کیانقصان پہنچتا ہے کہ وہ کمپیوٹرکے پیچھے بیٹھ کرمیڈیا کا کام کرنے والا ہو، کیونکہ انہوں نے اپنے دل میں ak74 کو اٹھارکھا تھا جس کا دھواں ان کی انگلیوں سے نکلتا تھا، جومختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے،میڈیا مواد تیار کرنے اور انہیں نشر کرنے سے روکتانہیں تھا، نہ ہی کم ہوتا تھا،نہ ہی بوریت اورسستی وکاہلی کا شکار ہوتا تھا۔انہیں اپنے اور عزت دار عراق میں موجود اپنےمجاہدبھائیوں سے کئی فاصلوں کی دوری کام کرنے سے نہیں روک سکی۔پس وہ توغیر عربوں کے لیے خصوصی طور پر مسلمانوں کے مایہ نازاورممتازلوگوں کے اس پیغام کو پہنچانے کی امانت نبھارہے تھے کہ توحید کے لیے ایسی مضبوط وبلندبنیادیں عراق میں موجود ہیں ، جنہوں نے عراق میں سراٹھانا وبلندکرنا شروع کردیا ہے،خلافت کے لیے ایسی اینٹیں موجود ہیں جنہوں نے دو ہجرتوں والی سرزمین (صومالیہ) پر اپنی عمارت کوبنانا اور مضبوط کرنا شروع کردیا ہے، دین کےایسےوفادارجانبازجزیرۂ عرب کےخود دارزنجبارمیں موجود ہیں اور قوقاز میں ایسے نوجوان ہیں،جنہیں دنیا اپنی لذتوں کے ساتھ توحید کو نشرکرنے اورشرک کا قلع قمع کرنے سے غافل نہیں کرسکتی۔
(بقیہ حصہ جواب میں)