عورتوں کے بازوں بچھانے کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اس لیئے ایسے مواقع پر احادیث نہیں ،بلکہ صحابہ تابعین اور علماء کے اقوال پیش کرنے چاہیے، کیونکہ حدیث کو سمجھنا ہر ایک آدمی کے بس کی بات نہیں، اس طرح حدیث کو پیش کرنے کے مطلب ہے کہ جس کی جو سمجھ میں آئے وہ دین ہے،جب کہ دین وہ ہے جو اللہ کی طرف سے اتارا گیا ہے، اس دین کو کون سمجھتا ہے؟اس کا جواب بھی حدیث میں موجود ہے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علماء انبیاء کے وارث ہوتے ہیں۔
اب ورثاء جو بات کہیں گے وہ قابل قبول ہو گی؟یا پھر وہ جو لوگوں کےذہنوں میں ہے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف 3،4 صحابہ کو ہی فتوی دینے کی اجازت دی تھی،یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب صحابہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں ہی رہیں ہیں،معلوم ہوا کہ دین سمجھنا کسی کسی کو آتا ہے، ہر ایرے غیرے کو دین کا سمجھ دار نہیں سمجھ لینا چاہیے ، بلکہ اس میں وہی صفات مدنظر رکھنی چاہیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رکھیں،اور اندازہ کیجئے کہ مدینہ منورہ میں موجود ہزاروں صحابہ میں سے صرف تین،چار صحابہ،حالانکہ ان میں کتنے کتنے جلیل القدر صحابہ بھی موجود تھے۔ اس لیے ہر کسی کو احادیث پیش نہیں کی جاتیں،بلکہ مسائل میں صحابہ ،تابعین اور علماء کے اقوال ذکر کیے جاتے ہیں
آئندہ احتیاط کیجئے گا،اور اس میں خاص طور پر مسئلہ والا پیج ہٹا دیجئے ،کیونکہ پیچھے والے مسئلوں میں تو ائمہ کے اقوال بڑی دلیری سے پیش کئے گئے ہیں ،اور انہی علماء کے اقوال سجدہ والے مسئلے میں چونکہ مؤلف کے خلاف ہیں اس لیے انہیں ذکر نہیں کیا،اور دین کی بات چھپانا گناہ ہے۔
اس لئے آپ اس صفحہ نمبر 150 کو ڈیلیٹ کر دیجے،باقی ٹھیک ہے۔
جزاک اللہ خیرا
شکریہ
Bookmarks