Results 1 to 12 of 13

Thread: *** اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب ***

Threaded View

Previous Post Previous Post   Next Post Next Post
  1. #1
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default *** اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب ***

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    اور یہ قرآن مجھ پر اس لئے اتارا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے تم کو اور جس شخص تک وہ پہنچ سکے اس کو آگاہ کر سکوں۔(الانعام-١٩)۔۔۔

    ہر قسم کی تعریفات اس اللہ وحدہ لاشریک کے لئے لائق و زیبا ہیں جس نے ہمیں اور آپ کو پیدا فرمایا اور دورد و سلام اس ذات اقدس پر جن کا نام نامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبداللہ ہے

    برادران اسلام واجب الحترام
    بھائیوں۔ بہنوں۔ دوستوں۔ عزیز ساتھیوں۔
    اسلام علیکم۔

    اسلام میں مختلف فرقے بننے کے اسباب

    اہل کتاب (یہود و نصارٰی) کے اختلاف کے اسباب و وجود پر قرآن مجید کی بے شمار آیتیں شاہد ہیں جن اسبات سے اہل کتاب میں اختلاف پھوٹے وہ اسبات امت مسلمہ میں بھی مدت دراز سے وجود پذیر ہوچکے ہیں۔ اور اختلافات باہمی کا جو نتیجہ یہود و نصارٰی کے حق میں نکلا تھا، مسلمان بھی صدیوں سے اس کا خمیازہ اٹھا ہے ہیں۔ کتاب الٰہی کو پس پشت ڈالنے اور انبیاء کی سنت و طریقے کو فراموش کر دینے اور اس کی جگہ کم علم اور دنیا ساز علماء اور گمراہ مشائخ کی پیروی اختیار کرنے کا جو وطیرہ اہل کتاب نے اختیار کر رکھا تھا مسلمان بھی عرصہ دراز سے اسی شاہراہ پر گامزن ہیں وضع مسائل اور اختراع بدعات سے دین کو تبدیل کرنے کا جو فتنہ یہود و نصارٰی نے برپا کیا تھا بد قسمتی سے مسلمان بھی اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے دین حنیف کا حُلیہ بگاڑ چکے ہیں۔

    رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اُمت میں اختلاف بے حد ناگوار تھا۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم گذشتہ امتوں کی مثال دے کر اپنی امت کو باہمی اختلافات سے ڈرایا کرتے تھے۔

    حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں دوپہر کے وقت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو کسی آیت کی نسبت آپس میں اختلاف کر رہے تھے پس رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور آپ کے چہرہ مبارک پر غصے کے آثار ظاہر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہی ہے کہ تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں اختلاف کرنے ہی کے سبب ہلاک ہوگئے۔(مشکوٰہ باب الاعتصام، صفحہ۔٢٠)۔۔

    قرآن میں اللہ تعالٰی نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کرنے اور مختلف فرقوں میں بٹ جانے سے منع فرمایا ارشاد باری تعاٰلی ہے۔

    تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آجانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کی انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے (ال عمران۔١٠٥)۔۔۔
    یہ آیت دین میں باہمی اختلاف اور گروہ بندی کی ممانعت میں بالکل واضع اور صریح ہے اللہ تعالٰی نے گذشتہ امتوں کا ذکر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو ان کی روش پر چلنے سے منع فرمایا، اس آیت کے ذیل میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہ قول ہے۔

    حضرت عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں مومنوں کو آپس میں متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے اور ان کو اختلاف و فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے اور ان کو خبر دی گئی ہے کہ پہلی امتیں صف آپس کے جھگڑوں اور مذہبی عداوتوں کی وجہ سے ہلاک ہوئیں بعض نے کہا کہ ان سے اس امت کے بدعتی لوگ مراد ہیں اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ حروری خارجی ہیں(تفسیر خازن، علامہ علاءالدین ابوالحسن بن ابراہیم بغدادی۔ جلد١ صفحہ ٢٦٨)۔۔۔


    صحیح مسلم میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا! اللہ تعالٰی نے زمین کو میرے سامنے اس طرح سمیٹ دیا کہ مشرق و مغرب تک بیک وقت دیکھ رہا تھا اور میری امت کی حدود مملکت وہاں تک پہنچیں گی جہاں تک مجھے زمین کو سمیٹ کر دکھایا گیا ہے اور مجھے دو خزانے عطاء فرمائے گئے ہیں ایک سرخ اور دوسرا سفید آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالٰی سے اپنی امت کے بارے میں عرض کیا تھا کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں صفحہ ہستی سے نہ مٹایا جائے اور یہ کہ میری امت پر مسلمانوں کے علاوہ کوئی خارجی دشمن مسلط نہ کیا جائے جو مسلمان کے بلادو اسبات کو مباح سمجھے۔ چنانچہ اللہ تعالٰی نے جوابا ارشاد فرمایا کہ! اے میرے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب میں کسی بات کا فیصلہ کر دیتا ہوں تو اسے ٹالا نہیں جاسکتا۔ میں نے آپ کی اُمت کے بارے میں آپ کو وعدہ دے دیا ہے کہ اسے ایک ہی قحط سالی میں تباہ نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ ان کے اپنے افراد کے علاوہ کسی دوسرے کو ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا جو ان کے مملوکہ مال و اسبات کو مباح سمجھ لے اگرچہ کفر کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو کر مسلمانوں کے مقابلے کے لئے جمع کیوں نہ ہو جائیں ہاں! مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہیں گے۔۔

    حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی صحیح میں لکھا ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں!
    میں اپنی امت کے بارے میں ان گمراہ کن پیشواؤں سے ڈرتا ہوں اور جب میری امت میں آپس میں تلواریں چل پڑیں گی تو قیامت تک نہ رُک سکیں گی اور اس وقت تک قیامت نہ ہوگی جب تک میری امت کی ایک جماعت مشرکوں سے نہ مل جائے اور یہ کہ میری امت کے بہت سے لوگ بُت پرستی نہ کرلیں۔ اور میری اُمت میں تیس جھوٹے دجال پیدا ہوں گے جو سب کے سب نبوت کا دعوٰی کریں گے حالانکہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور میری امت میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا اور فتح یاب ہوگا جن کی مدد چھوڑنے والے ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی کا حکم آجائے گا۔

    حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کے کہ رسول صلی اللہ علیہ نے فرمایا جو فتنہ بنی اسرائیل پر آیا وہی قدم با قدم میری امت پر آنے والا ہے کہ اگر ان میں سے ایک شخص ایسا ہوگا جس نے اعلانیہ اپنی ماں کے ساتھ زنا کیا ہوگا، تو میری اُمت میں بھی ایسا شخص ہوگا یہ حرکت کرے گا بنی اسرائیل میں پھوٹ پڑنے کے بعد بہتر (٧٢) فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، اور میری امت تہتر (٧٣) فرقوں میں متفرق ہوجائے گی ان میں بہتر (٧٢) دوزخی ہوں گے اور ایک فرقہ باجی یعنی جنتی ہوگا، صحابہ رضوان علیہم اجمعین نے عرض کی یارسول اللہ ! ناجی فرقہ کون سا ہوگا؟۔ فرمایا جو میے اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہما کے طریقہ پر چلتا ہوگا۔(ترمذی)۔۔

    اس حدیث مبارکہ میں امت مسلمہ کے اندر تفریق و گروبندی کی جو پیشن گوئی تھی وہ محض بطور تنبہہ و نصیحت تھی لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں کے مختلف فرقوں نے اس حدیث کو اپنے لئے ڈھال بنا لیا ہے اور (ماآنا علیہ واصحابی) کی کسوٹی سے صرف نظر کرتے ہیں ہرگر وہ اپنے آپ کو ناجی فرقہ کہتا ہے اور اپنے علاوہ دیگر تمام مکاتب فکر کو ضال و مضل اور بہتر (٧٢) فرقوں میں شمار کرتا ہے۔

    حالانکہ اگر اس حقیقت پر غور کیا جائے کہ اختلاف مسالک اور فرعات دین مختلف الرائے ہونے کے باوجود تمام مسلمان جو اللہ تعالٰی پر اس کے ملائکہ پر اس کے رسولون پر قیامت کے دن پر اچھی بُری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر اور موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے پر ایمان رکھتے ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی تسلیم کرتے ہیں نماز پڑھتے ہیں روزہ رکھتے ہیں زکاٰت ادا کرتے ہیں اور صاحب استطاعت ہونے پر حج کرتے ہیں معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکرات سے روکتے ہیں تو اللہ اس کے رسول کی نزدیک یہ سب مومن ہیں بشرطیکہ وہ اللہ یا اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کرتے ہوں احادیث قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں تمام مومنین کو آپس میں بھائی بھائی کہا گیا ہے۔ اور قرآن مجید میں بھی انہیں جنتیں دینے کا وعدہ کیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے(محمد۔١٢)۔۔۔

    یہ اور اس طرح کی بیشمار آیتیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں مومنین صالحین کی مغفرت اور فوز و فلاح کا وعدہ کیا گیا ہے اور کفار مشرکین کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے جو شخص دین کی مبادیات پر ایمان رکھتا ہو اور ارکان اسلام پر عمل پیرا ہو وہ دین کے فروعات میں دیگر مسلمانوں سے اختلاف رائے رکھنے کے باوجود مومن و مسلم ہی رہتا ہے ایمان سے خارج نہیں ہوتا دین کا فہم نہ تو سب کو یکساں عطا کیاگیا ہے اور نہ ہی اللہ تعالٰی نے تمام انسانوں کے ذہن، صلاحیتیں اور طبائع ایک جیسے رکھے ہیں بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ فرعی اختلاف میں قلت فہم کی بناء پر دو فریقوں میں سےایک یقینی طور پر غلطی پر ہوگا اور دوسرے فریق کا نظریہ درست اور شریعت کے مزاج و احکام کے مطابق لہذا ایسی صورت میں جو فریق دانستہ طور پر غلطی پر ہے تو اس کا دینی اور اخلاقی فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنی انانیت اورکبر و غرور کو پس پشت ڈال کر اس غلطی سے تائب ہو جائے اور اپنی کم فہمی اور جہالت کے لئے اللہ تعالٰٰی سے مغفرت طلب کرے بلاشبہ وہ غفور رحیم ہے اور اگر اس فریق سے غلطی کا ارتکاب نادانستہ طور پر ہو رہا ہے تو اس کا شمار (سیئات) میں ہوگا ایسی صورت میں فریق مخالف یعنی فریق حق کا فرض ہوگا کہ وہ اپنے ان بھائیوں کو نرمی محبت اور دلسوزی سے سمجھائیں اور صحیح راہ عمل واضح کریں۔ اس کے باوجود بھی اگر دوسرا فریق سمجھ کر نہیں دیتا تو اس کے لئے ہدایت کی دُعا کریں۔ آپ اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہوگئے مسلمانوں کی (سیئات) یعنی کوتاہیوں کے بارے میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے۔۔۔

    اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے اور ان سب چیزوں پر ایمان لائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئیں وہ چیزیں ان کے رب کے پاس سے امر واقعی ہیں اللہ تعالٰی ان کو تاہیوں کو درگذر فرمائے گا اور ان کی حالت درست کرگےگا۔(محمد۔٢)۔۔۔

    لہذا معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے ایمان و عمل صالح کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بعد ان کے تمام گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کا اعلان عام کر رہا ہے تو دوسروں کو یہ حق کب پہنچتا ہے کہ وہ اپنے صاحب ایمان بھائیوں کو محض فروعی اختلافات کی بناء پر جہنم رسید کر دیں اور ان کا شمار ان بہتر (٧٢) ناری فرقوں میں کرتے رہے جو خارج ایمان ہونے کی بناء پر زبان وحی و رسالت سے دوزخی قرار پائے؟ کیا ان کی یہ روش اللہ کے کلام کو جھٹلانے کے مترادف نہیں ہے؟؟۔۔۔

    کارتوس خان۔
    انشاء اللہ زندگی باقی تو بات باقی
    وسلام۔
    Last edited by Afridi; 26th May 2006 at 11:36 AM.

Similar Threads

  1. Replies: 21
    Last Post: 10th February 2016, 11:45 AM
  2. Replies: 31
    Last Post: 14th January 2014, 08:16 PM
  3. Replies: 18
    Last Post: 11th January 2012, 11:57 AM
  4. Replies: 32
    Last Post: 17th November 2009, 07:39 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •