Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 18

Thread: امریکی عدالت میں ایک پاکستانی مجرم کی تقر®

  1. #1
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default امریکی عدالت میں ایک پاکستانی مجرم کی تقر®




    امریکی عدالت میں ایک پاکستانی "دہشت گرد" کی تقریر جس نے بہت سے لوگوں کو رلا دیا طارق مھنا ایک پاکستانی مصری امریکن ہیں ان کے والدین پاکستان اور مصر سے امریکہ ہجرت کرگئے تھے اور طارق وہیں پیدا ہوئے اور پیدائش سےا مریکہ میں مقیم ہیں۔

    انہیں کچھ ہفتے قبل ہی امریکی حکومت نے انٹر نیٹ پر جہادیوں کی حمایت کرنے کے الزام میں کئی سال کے لئے جیل بھیج دیا ہے۔ جس وقت جج انہیں سزا سنا رہا تھا انہوں نے بھری عدالت میں ایک بیان دیا تھا۔ اس جذباتی بیان نے عدالت میں موجود بہت سے لوگوں کو مہبوت کردیا تھا اور کئی لوگ اپنی آنکھیں پونچھتے دیکھے گئے۔ اس تقریر کے بعد جج نے کہا کہ عدالت صرف قانون کے دائرے میں رہ کر فیصلہ دیتی ہے قانون بناتی نہیں اور امریکی قانون یہی کہتا ہے کہ آپ مجرم ہیں۔ ذیل میں دئی گئی تحریر دراصل وہ تقریر ہے جوطارق مھنّا نے۱۲ اپریل ۲۰۱۲ء کو سزا سنائے جانے پر امریکی جج کے سامنے کی، طارق مھنّا ان بہت سارے لوگوں میں سے ہیں جو اپنی حق گوئی کی بابت امریکی عقوبت خانوں میں قید ہیں اور امریکہ کی اسلام دشمنی کا ہد ف بن رہے ہیں۔ آپ ابو سبایا کے نام سے انٹرنیٹ پر جانے جاتے تھے اور بہت موثر مقرر ہیں۔

    بسم اللہ الرحمن الرحیم

    آج سے چار سال قبل یہی اپریل کا مہینہ تھا جب میں ایک مقامی ہسپتال میں اپنا کام ختم کرکے گاڑی کی طرف جارہا تھا کہ میرے پاس امریکی حکومت کے دو ایجنٹ آئے ۔ انہوں نے کہا کہ مجھے دو راہوں میں ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، ایک راستہ آسان تھا اور دوسرا مشکل۔ ’آسان‘ راستہ ان کے مطابق یہ تھا کہ امریکی حکومت کا مخبر بن جاؤں اور یوں کبھی عدالت یا قیدخانے کی صورت نہ دیکھنی پڑے گی اور دشوار راستہ، سو وہ آپ کے سامنے ہے۔تب سے اب تک ان چار سالوں کا اکثر حصہ میں نے قید تنہائی میں ایک ایسے کمرے میں گزارا ہے جس کا حجم ایک چھوٹی سی الماری جتنا ہے اور مجھے دن کے تئیس گھنٹے اسی میں بند رکھا جاتا ہے۔ایف بی آئے اور ان وکلاء نے بہت محنت کی،حکومت نے مجھے اس کوٹھری میں ڈالنے، اس میں رکھنے، مقدمہ چلانے اور بالآخر یہاں آپ کے سامنے پیش ہونے اور اس کوٹھری میں مزید وقت گزارنے کی سزا سننے کے لئے لوگوں کے اداکردہ ٹیکسوں کے سینکڑوں ڈالر خرچ کئے۔

    اس دن سے ماقبل ہفتوں میں لوگوں نے مجھے بہت سے مشورے دیئے کہ مجھے آپ کے سامنے کیا کہنا چاہئے۔ کچھ نے کہا کہ مجھے رحم کی اپیل کرنی چاہئے کہ شاید کچھ سزا میں تخفیف ہوجائے، جبکہ دوسروں کی رائے تھی کہ کچھ بھی کرلوں میرے ساتھ سختی ہی کا معاملہ کیا جائے گا۔تاہم میں بس یہ چاہتا ہوں کہ چند منٹ اپنے بارے میں گفتگو کروں۔ جب میں نے مخبر بننے سے انکار کردیا تو حکومت نے ردعمل کے طور پرمجھ پر الزام لگایا کہ میں نے دنیا بھر میں مسلم ممالک پر قبضے کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت کا’جرم‘ کیا ہے۔یا ’دہشتگردوں ‘ کی جیسا کہ وہ انہیں کہنا پسند کرتے ہیں۔حالانکہ میں کسی مسلمان ملک میں بھی پیدا نہیں ہوا۔ میں یہیں امریکہ میں پلا بڑھا ہوں اور یہی بات بہت سے لوگوں کو غضبناک کرتی ہے۔ایسا کیسے ممکن ہے کہ میں امریکی ہونے کے باوجود ان باتوں پر یقین رکھوں جن پر میں رکھتا ہوں اور وہ موقف اختیار کروں جو میں نے کررکھا ہے؟ آدمی اپنے ماحول میں جو کچھ دیکھتا ہے وہ ایک جز بن جاتا ہے جو اس کا نقطہ نظر تشکیل کرتا ہے، اور یہی حال میرا بھی ہے۔لہذا، ایک نہیں بلکہ بہت سی وجوہات کے سبب میں جو کچھ ہوں امریکہ ہی کی وجہ سے ہوں۔

    چھ سال کی عمر میں میں نے comic booksکا ذخیرہ جمع کرنا شروع کردیا۔بیٹ مین نے میرے ذہن میں ایک تصور بویا، میرے سامنے ایک نمونہ رکھا کہ کس طرح دنیا کا نظام چل رہا ہے،بعض ظالم ہوتے ہیں، بعض مظلوم ہوتے ہیں اور بعض وہ جو مظلمومین کی حمایت کے لئے آگے آتے ہیں۔یہ چیز میرے ذہن میں اس طرح پیوست رہی کہ اپنے پچپن کے پورے دور کے اندر میں ہر اس کتاب کی طرف کھنچا چلا جاتا جس میں یہ نمونہ پیش کیا جارہا ہوUncle Tom's Cabin, TheAutobiography of Malcolm X اور مجھے توThe Catcher in the Ryeمیں بھی ایک اخلاقی پہلو نظر آتا تھا۔ پھر میں ہائی اسکول پہنچ گیا اور تاریخ کے اسباق پڑھے ،اور مجھ پر یہ واضح ترہوگیا کہ دنیا کا یہ اصول کتنا حقیقی ہے۔میں نے امریکہ کے اصل باشندوں اور یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں ان پر ہونے والے ظلم کے بارے میں پڑھا۔

    میں نے پڑھا کہ پھر ان یورپی آبادکاروں کی نسلوں کو کس طرح کنگ جارج سوم کی جابرانہ حکومت کے دوران ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔میں نے پال ریوراور ٹام پین کے بارے میں پڑھا اور یہ کہ کس طرح امریکیوں نے برطانوی فوج کے خلاف مسلح بغاوت کی،وہ بغاوت جس کا اب ہم امریکہ کی انقلابی جنگ کی حیثیت سے جشن مناتے ہیں۔آج جہاں ہم بیٹھے ہیں بچپن میں اس سے کچھ دور ہی اسکول کی فیلڈ ٹرپ پر جایا کرتے تھے۔میں نے ہیریئٹ ٹب مین،نیٹ ٹرنر،جان براؤن اور اس ملک میں غلامی کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ایما گولڈمین،یوجین ڈیبز، مزدوروں کی انجمنوں، ورکنگ کلا س اور غرباء کی جدوجہدوں کے بارے میں پڑھا۔

    میں نے این فرینک اور نازیوں کے بارے میں پڑھا کہ وہ کس طرح اقلیتوں کو اذیتیں دیتے تھے اورمخالفین کو قید کردیتے تھے۔میں نے روزا پارکس، میلکم ایکس، مارٹن لیوتھر کنگ اور شہری حقوق کی جدوجہد کے بارے میں پڑھا۔میں نے ہو چی منھ کے بارے میں پڑھا کہ کس طرح ویت نام کے باشندگان نے کئی دہائیاں یکے بعد دیگرے آنے والے غاصبین کے خلاف لڑنے میں گزاردیں۔ میں نے نیلسن منڈیلا اور جنوبی افریقہ میں نسلی عصبیت کے خلاف جنگ کے بارے میں پڑھا۔میں نے ان سالوں میں جو کچھ پڑھا وہ چھ سال کی عمر میں سیکھی گئی بات کی مزید تصدیق کررہا تھا، کہ پوری تاریخ میں ظالم اور مظلوم کے درمیان ایک مستقل جنگ جاری رہی ہے۔

    میں نے جس بھی جدوجہد کے بارے میں پڑھا ،میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مظلوم کا طرفدار پایا، اور ان کی حمایت میں کھڑے ہونے والوں کو میں نے ہمیشہ احترام کی نگاہ سے دیکھا، خواہ وہ کسی بھی ملک سے ہوں، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں۔ میں نے کبھی بھی اپنی کلاسوں کے نوٹس نہیں پھینکے۔ آج بھی جبکہ میں یہاں کھڑا ہوں وہ میرے کمرے کی الماری میں سلیقے سے رکھے ہیں۔ جتنی بھی تاریخی شخصیات کے بارے میں میں نے پڑھا ان میں سے ایک سب میں ممتاز تھی۔ملیکم ایکس کے بارے میں بہت سی چیزوں نے مجھے متاثر کیا لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ دلچسپی بڑھائی وہ کایا پلٹ تھی، ان کی کایا پلٹ۔مجھے معلوم نہیں کہ آپ نے سپائک لی کی فلم ’X‘ دیکھی ہے یانہیں، یہ تقریبا ساڑھے تین گھنٹے کی ہے، اور ابتدا میں نظر آنے والا میلکم آخر میں نظر آنے والے میلکم سے بہت مختلف ہے۔وہ ایک ان پڑھ مجرم ہوتا ہے جو بعدازاں ایک شوہر، ایک باپ ، اپنے لوگوں کا محافظ اور فصیح البیاں لیڈر بن جاتا ہے، ایک اصولی مسلمان جو مکہ میں حج کا فریضہ ادا کرتا ہے اور بالآخر شہید ہوجاتا ہے۔میلکم کی زندگی نے مجھے یہ سبق دیا کہ اسلام کوئی وراثتی دین نہیں ہے؛یہ کسی نسل یا تہذیب کا نام نہیں ہے۔ یہ تو طریقہ زندگی ہے،ایک فکری حالت ہے جو کوئی بھی اپنا سکتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو اور کسی بھی ماحول میں پلا بڑھا ہو۔اس چیز نے مجھے اسلام کو بنظر غائر دیکھنے کی ترغیب دی اور بس پھر میں اس کا دلدادہ ہوگیا۔

    میں تو صرف ایک نوجوان تھا اوراسلام اس سوال کا جواب پیش کرتا تھا جو بڑے بڑے سائنسی ذہن دینے سے قاصر ہیں۔اور جس کا جواب نہ پاکر امرا ء اور مشہور و معروف لوگ ڈیپریشن اور خودکشیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔زندگی کا مقصد کیا ہے؟اس کائنات میں ہمارا وجود کیوں ہے؟ اسلام نے جواباً بتایا کہ کس طرح ہمیں زندگی گزارنی ہے۔کیونکہ اسلام ہمیں کسی پیشوا یا راہب کا محتاج نہیں کرتا لہذا میں نے براہ راست قرآن اور سنت کی گہرائیوں میں جانا شروع کردیا،تاکہ اس فہم کے سفر کا آغاز کرسکوں کہ اسلام کیا ہے،بحیثیت انسان اسلام میرے لئے کیا پیش کرتا ہے، ایک فرد کی حیثیت سے، میرے اردگرد کے لوگوں کے لئے، ساری دنیا کے لئے، اور جتنا جتنا میں سیکھتا گیا،مجھے اسلام کی قدر وقیمت کا اتنا ہی احساس ہونے لگا گویا وہ کوئی ہیرا ہے۔یہ میرے عنفوان شباب کی بات ہے، لیکن آج بھی پچھلے چند سالوں کے دباؤ کے باوجود، میں یہاں آپ کے اور اس کمرہ عدالت میں موجود تمام لوگوں کے سامنے ایک مسلمان کی حیثیت سے کھڑا ہوں،الحمدللہ۔ اس کے ساتھ ہی میری توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات کی طرف گئی۔اور جدھر بھی میں نے نگاہ ڈالی میں نے دیکھا کہ نام نہاد طاقتیں میری محبوب شے کے درپے ہیں۔مجھے پتہ چلا کہ سویت نے افغانستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔مجھے معلوم ہوا کہ سربوں نے بوسنیا کے مسلمانوں پرکیا قیامت ڈھائی۔مجھے روسیوں کے ہاتھوں چیچن مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے متعلق پتہ چلا۔مجھے پتہ چلا کہ اسرائیل نے لبنان میں کیا کیا تھا، اوراب امریکہ کی مکمل پشت پناہی کے ساتھ فلسطین میں کیا کچھ کررہا ہے۔اور مجھے پتہ چلا کہ خود امریکہ مسلمانوں کے ساتھ کیا کررہا ہے۔مجھے جنگ خلیج کے متعلق اور ان یورینیم بموں کے متعلق علم ہوا جن سے ہزاروں لوگ مر گئے اور عراق میں کینسر کی شرح آسمان کو پہنچ گئی۔میں نے امریکہ کے صادر کردہ ان احکامات و قوانین کے بارے میں جانا جن کے باعث عراق میں کھانا، دوائیں اور طبی سامان جانے سے روک دیا گیا اور کس طرح ،اقوام متحدہ کے مطابق،نتیجتاً پانچ لاکھ سے زائد بچے ہلاک ہوئے۔

    مجھے میڈیلائن ایلبرائٹ کے ’۰ ۶ منٹ ‘ کے انٹرویو کا ایک حصہ یاد ہے جس میں اس نے اپنا یہ اظہار خیال کیا تھا کہ یہ بچے اسی قابل تھے۔میں نے گیارہ ستمبرکو دیکھا کہ کس طرح کچھ افراد نے ان بچوں کی ہلاکتوں پر ہوائی جہاز ہائی جیک کرنے اور انہیں عمارتوں میں اڑادینے کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔پھر میں نے دیکھا کہ امریکہ نے براہ راست عراق پر حملہ کردیاہے۔میں نے حملے کے پہلے روزآپریشن ’Shock and Awe‘ کے نتیجے میں ہونے والی تباہی دیکھی، ہسپتال کے واڑدوں میں وہ بچے تھے جن کے سروں میں امریکی میزائلوں کے ٹکڑے کھبے ہوئے تھے(ظاہر ہے یہ سب کچھ سی این این پر نہیں دکھایا گیا)۔ مجھے حدیثہ کے قصبے کے بارے میں علم ہواجہاں چوبیس مسلمانوں کو جن میں ایک چھیتر سالہ ویل چیئر پربیٹھا بوڑھا، عورتیں اور ننھے بچے شامل ہیں، ان کے بستروں میں ہی گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے عبیر الجنبی کے بارے میں پتی چلا، ایک چودہ سالہ عراقی بچی جسے پانچ امریکی فوجیوں نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے پھر اس کے اور اس کے گھر والوں کے سروں میں گولیاں ماریں اور ان کی لاشوں کو جلا دیا۔میں بس اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں، آپ دیکھتے ہی ہیں کہ مسلم خواتین نامحرم مردوں کو اپنے بال تک نہیں دکھاتیں۔ ذرا تصور کریں ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والی بچی کو بے لباس کیا جائے اور پھر ایک نہیں، دو نہیں ، تین نہیں یکے بعد دیگرے پانچ فوجی اسے بے عزت کریں۔آج بھی جبکہ میں اپنے سیل میں بیٹھا ہوتا ہوں ،ان ڈرون حملوں کے بارے میں پڑھتا ہوں جو پاکستان ، صومالیہ اور یمن جیسے ممالک میں روزانہ مستقل بنیاد پر مسلمانو ں کو قتل کررہے ہیں۔

    [IMG]http://i445.***********.com/albums/qq172/soni_006/th_Ryu-3.gif[/IMG]

  2. #2
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default


    پچھلے ماہ ہی ان سترہ افغان مسلمانوں کے بارے میں سنا جن میں اکثریت ماؤں اور ان کے بچوں کی تھی،جو ایک امریکی فوجی کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اس نے ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا۔ یہ تو صرف چند کہانیاں ہیں جو شہ سرخیوں تک پہنچ پاتی ہیں، تاہم اسلام کے جو تصورات میں نے سب سے پہلے سیکھے ان میں بھائی چارہ اور وفادرای بھی شامل ہے، کہ ہر مسلمان خاتون میری بہن ہے اور ہر مرد میرا بھائی اور مل جل کر ہم سب ایک جسم کی مانند ہے اور ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنی ہے۔بالفاظ دیگر ،میں یہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا رہے، امریکہ بھی ظالموں میں شامل ہو اور میں غیر جانبدار رہوں۔مظلوموں کے لئے میری حمایت جاری رہی تاہم اس بار اس میں اپنائیت بھی تھی، اور یہی احساسات ان لوگوں کے لئے بھی تھے جو ان مظلومین کے دفاع میں اٹھے۔ میں نے پال ریور کا تذکرہ کیا تھا، وہ آدھی رات کو لوگوں کو خبردار کر نے کے لئے نکلا کہ برطانوی سام ایڈمز اور جان ہینکاک کو گرفتار کرنے کے لئے لیگزنگٹن کی طرف پیش قدمی کررہے ہیں اور اس کے بعد کانکورڈجائیں گے تاکہ وہاں آزادی کے لئے لڑنے والی ملیشیا کے ذخیرہ کردہ اسلحہ کو ضبط کریں۔جس وقت تک برطانوی کانکورڈ پہنچے آزادی کے لئے لڑنے والے لوگ اپنے ہاتھوں میں اسلحہ لئے ا ن کے سامنے مقابلے کے لئے کھڑے تھے۔انہوں نے برطانویوں پر گولیاں چلائیں، ان سے لڑائی کی اور انہیں ہرا دیا۔

    اسی جنگ سے امریکی انقلاب کا آغا ز ہوا۔ جو کام ان لوگوں نے کیا اس کے لئے ایک عربی لفظ ہے ،اور وہ لفظ ’جہاد ‘ہے، اور میرا مقدمہ بھی اسی سے متعلق تھا۔وہ ساری ویڈیوز اور تراجم اور بچکانہ بحثیں کہ’ اوہ! اس نے اس جملے کا ترجمہ کیا تھا ‘اور ’اوہ ! اس نے اس جملے پر نظر ثانی کی تھی!‘،اور وہ تمام پیش کردہ باتیں ایک ہی معاملے کے گرد گھومتی تھیں:وہ مسلمان جو امریکہ کے خلاف اپنا دفاع کررہے تھے جو ان کے ساتھ وہی سلوک کررہا ہے جو برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ کیا تھا۔پیشیوں کے اندر یہ بات بالکل واضح ہوگئی تھی کہ میں کبھی بھی بازاروں میں ’امریکیوں کے قتل‘ کے کسی منصوبے میں شامل نہیں رہا، یا جو بھی کہانی بنائی گئی تھی اس سے میرا کوئی تعلق نہیں۔حکومتی گواہوں نے خود بھی اس دعوے کا رد کیا، اور ایک کے بعد دوسرا ماہر اس جگہ آکر کھڑا ہوتا رہا، جنہو ں نے میرے تحریر کردہ ہر ہر لفظ کے حصے بخرے کرنے میں کئی گھنٹے گزارے کہ میرے عقائد کو بیان کرسکیں۔ اس کے بعد جب میں آزاد ہواتو حکومت نے اپنا ایک خفیہ ایجنٹ بھیجا کہ وہ مجھے اپنے کسی چھوٹے سے’دہشتگردانہ منصوبے‘ میں ملوث ہونے کی ترغیب دے سکے، لیکن میں نے شمولیت سے انکار کردیا۔ تاہم حیرت کی بات ہے کہ جیوری کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں۔

    لہذا ،میرا یہ مقدمہ امریکی شہریوں کے قتل پر میرے موقف کے لحاظ سے نہیں تھا، بلکہ یہ امریکیوں کے ہاتھوں مسلمان شہریوں کے قتل کے لحاظ سے میرے موقف پر تھا، اور وہ یہی ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اراضی پر غاصب قوتوں کے خلاف دفاع کرنا چاہئے چاہے وہ امریکی ہوں ، روسی ہوں یا مریخی ہوں۔میں اسی بات پر یقین رکھتا ہوں، ہمیشہ سے میرا یہی یقین رہا ہے اور ہمیشہ یہی یقین رہے گا۔یہ نہ دہشت گردی ہے ،نہ انتہا پسندی ہے۔یہ تو بس دفاع نفس کی سادہ سی منطق ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی نمائندگی آپ کے اوپر موجود علامت کے تیر کررہے ہیں، وطن کا دفاع۔چنانچہ میں اپنے وکلاء کی اس بات سے متفق نہیں ہوں کہ آپ کو میرے عقائد ماننے کی ضرورت نہیں۔نہیں،بلکہ جس کے اندر بھی تھوڑی سی عقل اور انسانیت ہوگی لامحالہ اسے یہ بات ماننی ہی پڑے گی۔

    اگر کوئی آپ کے گھر میں گھس کر چوری کرنا چاہے اور آپ کے اہل و عیال کو نقصان پہنچانا چاہے تو عقل یہی کہے گی کہ اس جارح کو باہر نکالنے کے لئے جو کچھ ہو سکتا ہے وہ کیا جائے۔ لیکن جب وہ گھر کوئی مسلم سرزمین ہو، اور وہ جارح امریکی فوج ہو، تو کسی وجہ سے یہ اصول بدل جاتے ہیں۔عقل کا نام’دہشت گردی ‘رکھ دیا جاتا ہے، اور جو لوگ سمندر پار سے آئے قاتلوں کے خلاف اپنا دفاع کرتے ہیں وہ ’دہشت گرد‘ بن جاتے ہیں جو ’امریکیوں کو قتل‘ کررہے ہیں۔ ڈھائی صدی پہلے امریکہ جس ذہنیت کا شکار تھا جب برطانوی ان سڑکوں پر چل رہے تھے وہی ہے جس کا شکا ر آج مسلمان ہیں جن کی سڑکوں پر امریکی فوجی مٹر گشت کررہے ہیں۔ یہ استعماریت کی ذہنیت ہے۔جب سرجنٹ بیلز نے پچھلے مہینے ان افغانوں کو قتل کیا تو ذرائع ابلاغ کا سارا زور اس کی ذات پر تھا، اس کی زندگی، اس کی پریشانی، اس کے گھر کا گروی ہونا، گویا وہی ظلم کا نشانہ بنا ہے۔اور جن لوگوں کو اس نے ماراتھا ان کے لئے کم ہی ہمدردی دکھائی گئی،گویا وہ حقیقی لوگ نہیں تھے، انسان نہیں تھے۔بدقسمتی سے یہی ذہنیت معاشرے کے ہر فرد میں راسخ ہوچکی ہے،چاہے اسے اس بات کا احساس ہو یا نہ ہو۔حتی کہ میرے وکلاء بھی، دو سال گفتگو کرنے، سمجھانے اور وضاحتیں پیش کرنے میں لگے اور پھر کہیں جاکر وہ اس قابل ہوئے کہ اپنے خول سے باہر جھانک سکیں اور کم ازکم میری بات میں موجود منطق و عقل کو بناوٹی طور پر ہی قبول کرسکیں۔

    دو سال!اگر اتنے ذہین لوگوں کو اتنا وقت لگا، جن کا کام میرا دفاع کرنا تھا، اپنی ذہنیت تبدیل کرنا تھا ، اور پھر مجھے یونہی کسی جیوری کے سامنے پیش کردیا گیا اس بات کے تحت کہ وہ میرے’غیر جانبدار موکل‘ ہیں ، مطلب یہ کہ مجھے اپنے ساتھیوں کی جیوری کے سامنے نہیں پیش کیا گیا کیونکہ جو ذہنیت امریکہ پر چھائی ہوئی ہے اس کی وجہ سے میرے کوئی ساتھی ہی نہیں۔اسی حقیقت کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت نے مجھ پر مقدمہ چلایا، اس لئے نہیں کہ انہیں کوئی حاجت تھی، بس صرف اس لئے کیونکہ وہ ایسا کرسکتے تھے۔ میں نے تاریخ کی کلاسوں میں ایک او ر بات بھی سیکھی تھی۔

    امریکہ نے تاریخ میں ہمیشہ اپنی اقلیتوں کے خلاف غیر منصفانہ ترین حکمت عملیاں اپنائی ہیں، ایسے افعال جنہیں قانون کا تحفظ بھی حاصل تھا، اور پھربعد میں پیچھے دیکھ کر یہی کہا گیا’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘غلامی، جم کرو،جنگ عظیم دوئم میں جاپانیوں کی نظر بندی، یہ سب امریکی معاشرے میں بالکل قابل قبول تھا، اور سپریم کورٹ کی پشت پناہی کے ساتھ تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اور امریکہ بدل گیا، عوام اور عدلیہ دونوں نے پیچھے دیکھ کر یہی کہا کہ ’آخر ہم کیا سوچ رہے تھے؟‘ جنوبی افریقہ کی حکومت نیلسن منڈیلا کودہشت گرد سمجھتی تھی، اور اسے قید حیا ت کی سزا سنائی گئی تھی۔لیکن وقت گزر گیا اور دنیا بدل گئی،انہیں احساس ہوا کہ ان کی پالیسی کتنی ظالمانہ تھی، کہ دراصل وہ دہشت گرد نہیں تھا، اور اسے قید سے آزاد کردیاگیا۔ وہ صدر بھی بن گیا۔ لہذا ہر چیزذہنیت سے تعلق رکھتی ہے، یہ ’دہشت گردی‘ کا سارا معاملہ بھی اور یہ کہ کون ’دہشت گرد ‘ہے۔یہ سب تو وقت اور مقام پر منحصر ہے اور یہ کہ کون اس وقت ’عالمی قوت ‘ ہے۔

    آپ کی نظروں میں میں دہشت گردہوں، صرف ایک میں ہی یہاں پر ایک زرد لباس میں کھڑا ہوں اور میرا یہاں زرد لباس میں کھڑا ہونا بالکل معقول ہے۔ لیکن ایک دن امریکہ بدل جائے گا اور لوگوں کو اس دن کی حقیقت کا احساس ہوگا۔وہ دیکھیں گے کہ کس طرح ہزاروں لاکھوں مسلمان غیر ممالک میں امریکی فوج کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اپاہج ہوئے۔ تاہم کسی طریقے سے آج میں ہوں جسے ان ممالک میں’قتل اور اپاہج کرنے کی سازش ‘ کی وجہ سے قید میں بھیجا جارہا ہے، کیونکہ میں ان لوگوں کا دفاع کرنے والے مجاہدین کی حمایت کرتا ہوں۔لوگ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے کہ کس طرح حکومت نے مجھے’دہشتگرد‘ کی حیثیت سے قید کرنے کے لئے لاکھوں ڈالر خرچ کئے، لیکن اگر ہم کسی طرح امیر الجنبی کو اس موقع پر زندہ کرکے لاکھڑا کریں جب وہ آپ کے فوجیوں کے ہاتھوں ذلیل ہورہی تھی، اسے اس گواہی کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور اس سے پوچھیں کہ دہشت گرد کون ہیں، تو یقیناًاس کا اشارہ میر ی طرف نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مجھ پر شدت کا بھوت سوار ہے، ’امریکیوں کے قتل ‘کا بھوت سوار ہے۔ لیکن اس دور میں رہنے والے مسلمان کی حیثیت سے، میں اس سے زیادہ طعن آمیز جھوٹ سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔

  3. #3
    Abu Dajana's Avatar
    Abu Dajana is offline Senior Member+
    Last Online
    4th July 2015 @ 04:21 PM
    Join Date
    21 Oct 2011
    Age
    38
    Gender
    Male
    Posts
    602
    Threads
    28
    Credits
    965
    Thanked
    131

    Default

    مزید سرچنگ کے دوران۔۔ اس نوجوان کا ایک خط بھی ہاتھ لگا ہے۔۔جو اس نے دوران قید لکھا ہے۔۔

    Br. Tariq Mehannas Letter from Prison - MuslimMatters.org

  4. #4
    conceal_me's Avatar
    conceal_me is offline Senior Member+
    Last Online
    25th February 2016 @ 08:29 PM
    Join Date
    16 Feb 2011
    Location
    Lahore
    Gender
    Male
    Posts
    1,385
    Threads
    49
    Credits
    1,065
    Thanked
    129

    Default

    America ka asal chehra nanga kr dia us larke ne

  5. #5
    Jamil Afridi's Avatar
    Jamil Afridi is offline Advance Member
    Last Online
    5th June 2020 @ 03:49 PM
    Join Date
    27 Nov 2010
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    1,465
    Threads
    40
    Credits
    350
    Thanked
    88

    Default

    is azeem shakhs ne america ka asal chehra dikhaa diya poori duniya ko

  6. #6
    Rizwan chattha is offline Member
    Last Online
    9th August 2013 @ 09:19 PM
    Join Date
    17 Aug 2007
    Age
    35
    Posts
    354
    Threads
    12
    Thanked
    7

    Default

    Allah is ko aor himat aor takaat ataa farmay Ameen!

  7. #7
    email_ali is offline Senior Member+
    Last Online
    16th March 2018 @ 08:27 PM
    Join Date
    21 Mar 2012
    Location
    karachi
    Gender
    Male
    Posts
    338
    Threads
    20
    Credits
    19
    Thanked
    11

    Default

    SHAME on PAKISTANI MEDIA

    and government

  8. #8
    MOHAMMEDIMRAN's Avatar
    MOHAMMEDIMRAN is offline Senior Member+
    Last Online
    17th September 2016 @ 11:52 AM
    Join Date
    19 Dec 2008
    Posts
    2,722
    Threads
    161
    Credits
    1,056
    Thanked
    313

    Default

    Zabardast sharing
    jazakALLAH
    Sallallahu Alaa Muhammed, Sallallahu Alaihi Wasallam..

  9. #9
    faraz101's Avatar
    faraz101 is offline Senior Member+
    Last Online
    20th August 2020 @ 11:06 AM
    Join Date
    03 Oct 2008
    Location
    mujhe khud nahin pata
    Age
    39
    Gender
    Male
    Posts
    1,318
    Threads
    48
    Credits
    1,198
    Thanked
    96

    Default

    is bhai ne sub ke samnay itna khula sach bol ker sach main jihad kia hai. aik zalim ke moonh per thappar mara hai. aur aik hum hain jo drone attack per chup hain. her zulm seh rahe hain aur aur un zamilon ke ghulam hukmarano ko kandhon per uthatay hain

  10. #10
    KHANZZzzz's Avatar
    KHANZZzzz is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd December 2014 @ 10:39 PM
    Join Date
    14 Dec 2008
    Location
    Athens, Greece
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    2,652
    Threads
    187
    Credits
    127
    Thanked
    446

    Default

    حقیقت بولنے کی حمت خدا ہم سب کو عطا کرے ۔۔۔ آمین

  11. #11
    choyau's Avatar
    choyau is offline Advance Member
    Last Online
    9th October 2021 @ 12:54 AM
    Join Date
    02 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    721
    Threads
    74
    Credits
    1,227
    Thanked
    37

    Default

    tariikh main ese bohot hi kam log milay hain jo waqt k jabir hukrano k mon par haq or sach ka nara lagaya ho..
    or jinhonay esa kia hai wo tariik andheron main dhakelay gae hain..
    par Rabb Ta'la ka qanoon kuch ajeeb hai..
    jab bhi kisi qoum mian zulm badtariij barhta jata hai wahan rahmat e ilahi ka asar bhi dekhnay ko milta hai...
    jis qoum main fir'on peda hota hai wahan Moosa bhi peda hota hai or palta bhi usi k ghar main hai par phir bhi nar e haq say nahi ghabrata...
    Qur'an shariif main us mard e momin ka zikr bhi hai jis nay Hazrat Moosa A.S k kam ki taiid ki thi or fir'on ko daray tha k "ye nabi bar haq hai. tum daro apnay anjam ko" us mard e momin nay bhi usko uski apni darbaar main haq goi ki or Khuda Ta'ala nay us ki pori taqriir Qur'an Shariif main naql ki hai... Sora e Momin main ye waqea hai..

    dosto!!!
    bas apnay afkaar or salaf Salhiin ki pervi kartay raho In shaAllah hulAziiz wo apna sar patakhty phiren gay lekin kamiyabi un k hissay main nahi ae gi...

    bhai Abu Dajana!!!
    bohot shukria k ek mard e momin k ese alfazon say Waqif karway jo agar koi bhi sunay ga apnay salaf ko sacha pae ga... or ainda nasal k liae ek hamwar raah ka ta'ayyun karnay main koi diqqat na hogi...


    Last edited by choyau; 27th May 2012 at 11:02 AM.

  12. #12
    azkraja is offline Senior Member+
    Last Online
    11th December 2018 @ 01:44 PM
    Join Date
    16 Mar 2010
    Gender
    Male
    Posts
    427
    Threads
    4
    Credits
    12
    Thanked
    42

    Default

    Amrican Qaum tu Islam ki dushman hai hi, laikan nam nehad Pakistani Musalman hukmran un ki ghulami main, aur kuch humaray Pakistani bhai fashion main apnay hi Musalaman bhaiyun kay dushman hain, aur ye zehni ghulami ki wajha say unain Dashtgard kehtay hai, Pakistani Qaum ki akseeriat bhi isi propaganda ki shakar hai, afsoos sad afsoos. Allah Pak in ko Hidayat day.

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 8
    Last Post: 28th June 2015, 08:46 AM
  2. نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم مقبولیت
    By imran sdk in forum General Discussion
    Replies: 15
    Last Post: 17th August 2014, 12:20 PM
  3. Mughal Shehzadiyan
    By Confuse in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 7
    Last Post: 17th November 2013, 04:07 PM
  4. Urdu Poet - Saghar Siddique
    By uploader in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 11
    Last Post: 26th August 2013, 01:11 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •