بے شک آج کا مسلمان پریشان ہے اور وہم کا شکار ہے اور شاید یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا وہ صحیح دین پر چل رہا ہے یا نہیں
اور اس کے ذمہ دار وہ نام نہاد علماء ہیں جنہوں نے دین کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور بعض نے اپنی ذاتی انا اور شاید کچھ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دین اسلام ان کے گھر کی لونڈی ہے
انسانی نظریات کے درمیان اختلاف ہونا کوی بڑی بات نہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بنیاد کو تبدیل کردیا جاے
اگر آپ سوسال یا پچاس سال پیچھے چلے جایں تو شاید مسالک کے درمیان نفرت اور اختلاف آج سے الگ تھا
آج قوت برداشت ختم ہوچکی ہے دوسرے کا نقطہ نظر اور سوچ میرے لیے زہر ہے یا ہوسکتا ہے کیوینکہ میں اُس کے نقطہ نظر سے متفق نہیں اور نتیجہ فساد اور قتل وغارت کیوں آخر کیوں
کیا ضروری ہے کہ میں سامنے والے کو بتاوں کہ میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، سلفی یا وہابی اور پتہ نہیں کیا کیا ہوں
میری پیہچان اسلام ہے اور میں مسلمان ہوں اور مسلمان کیا ہوتا ہے اور اس کا عقیدہ کیا ہے سب کو پتہ ہے
ہمیں اپنے اندر قوت برداشت پیدا کرنی چاہیے مان لیا میں آپ کے نقطہ نظر سے متفق نہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کی جان لے لوں
ہم کہتے ہیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے کیا واقعی ہم اس امن اور سلامتی والے دین کے وارث ہیں سوچنے کی بات ہے؟
Bookmarks