ثقلین مشتاق دا ناں کنے لکھنا سی؟۔
اور عمران نذیر کا بھی وہی مسئلہ ہے یار۔
تیس چالیس کر کے اگلی گیند اٹھا دیتا ہے۔
دو ہزار سات کے ورلڈ کپ میں سارے میچ پاکستان ہار گیا۔
زمبابوے کے خلاف میچ کی اہمیت ہی کوئی نہیں تھی۔ اس میں ایک سو ساٹھ بنا گیا۔
پہلے صرف چالیس پچاس بھی بنا لیتا پچھلے میچز میں تو کام آ سکتے تھے۔۔
لیکن جب ضرورت نہیں تھی تب ایک سو پینسٹھ کو سر پر مارنا ہے۔
اس کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لو کنسسٹینٹ نہیں تھا وہ کھیلنے میں۔
کبھی سو بنا لئے اور اگلے پانچ میچز میں دس بیس ہی بنائے۔
ایوریج اس کی پچیس سے بھی کم ہے ون ڈے میں۔ جو کہ اکثر ایک ساتویں، آٹھویں نمبر کے بیٹسمین کی ہوتی ہے آسٹریلیا، ساؤتھ افریقہ، انگلینڈ جیسی ٹیمز میں۔
ثقلین کا میں کہہ سکتا ہوں کہ جس فارم میں وہ کھیلا اور جس ایج میں وہ ٹیم سے باہر ہو گیا، اگر وہ مستقل کھیلتا رہتا، تو بلاشبہ مرلی دھرن سے کہیں زیادہ وکٹس ہوتیں اس کی۔۔ مرلی دھرن نے دوسرا اس سے ہی سیکھا اور اس ٹیکنیک سے ہی زیادہ وکٹس لیں۔۔ تیسرا بھی اسی کی ایجاد ہے۔
Bookmarks