پاکستان میں جبکہ ایک سیاسی طوفان مچا ہوا ہے اس دوران میں چوہدری شجاعت حسین شاید وہ واحد سیاستدان ہیں جو اپنا سیاسی زہن استعمال کرتے ہوئے اس کلیے پر چل رہے ہیں کہ ہر بحران میں سے کوئی موقع نکلتا ہے اور موجودہ بحران میں انہوں نے پرویز الہی کے لیے ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ حاصل کر کے سیاسی پنڈتوں کو ایک پیغام بھیجا ہے کہ وہ ابھی بھی اس ملک کے سیاسی گاڈفادر کہلوانے کے لائق ہیں۔
پرویز الہی کو پاکستان کا پہلا ڈپٹی وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور جو خواب انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں دیکھا تھا کہ ایک دن وہ اس ملک کے وزیراعظم بنیں گے، وہ تقریبا پورا ہوگیا ہے اور مزے کی بات ہے کہ یہ خواب پورا بھی کس دور میں ہوا ہے جب پیپلز پارٹی اقتدار میں ہے اور سب سے بڑھ کر آصف زرداری اس ملک کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی زرداری ہیں جن کی دوبئی سے لاہور آمد پر دو ہزار چار میں پرویز الہی نے بطور وزیراعلی ان کے ورکرز کی خوب پنجاب پولیس کے ہاتھوں ٹھکائی کرائی تھی اور ان میں واشنگٹن میں پاکستان کی موجودہ سفیر شیری رحمن بھی شامل تھیں۔
پرویز الہی کے ڈپٹی وزیراعظم بننے کا سفر بہت دلچسپ اور بہت ساروں کے لیے شاید سبق آموز بھی ہے۔ جب سے ظفراللہ جمالی وزیراعظم بنے تھے اس وقت سے پرویز الہی نے بھی وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنا شروع کیا تھا۔ اگرچہ شروع میں انہیں پنجاب کا وزیراعلی منوانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑی کیونکہ لاہور کو یا تو کورکمانڈر ضرار عظیم ( نک نیم ضرار زمین) چلا رہے تھے یا پھر چیف سیکرٹری حفیظ رندھاوا جو جنرل مشرف کے کلاس فیلو اور دوست ہونے کے دعویدار تھے۔ تاہم کچھ عرصے بعد پرویز الہی نے اپنے آپ کو وزیراعلی کا اہل ثابت کیا اور بہترین بیوروکریٹس کی خدمات حاصل کر کے انہوں نے صوبے میں ترقیاتی کاموں کا ایک نیا دور شروع کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پرویز الہی نے بہتر ایڈمنسٹریڑ کے طور پر کام کیا اور ان کے دور حکومت میں پنجاب میں زیادہ ترقی ہوئی اور نئے ادارے بھی وجود میں آئے۔ اگرچہ ان کے فرزند مونس الہی بھی بہت سارے الزامات کی زد میں ائے کہ وہ بھی اپنے باپ کی پوزیشن سے اس طرح فائدے اٹھا رہے تھے جیسے شہباز شریف کے حمزہ شہباز یا گیلانی کے موسی گیلانی کے بارے میں الزامات لگتے رہتے ہیں۔
تاہم شوکت عزیر کے وزیراعظم بننے کے بعد پرویز الہی کے اندر یہ خواہش نئے سرے سے جاگی کہ وہ بھی اس ملک کے وزیراعظم بن سکتے تھے اور اس کام کے لیے انہیں پتہ چلتا تھا کہ صرف جنرل مشرف اور ان کے قریبی دوست طارق عزیز کو خوش کرنا تھا ۔ اگرچہ چوہدریوں نے ہی شوکت عزیز کو اٹک سے ایم این اے بنوایا تھا تاہم ان پر ہونے والے خود کش حملے کے بعد اس وقت کے سابق وزیراعظم جمالی نے اپنے ایک انٹرویو میں اس حملے کے پیچھے کسی اور کا نہیں بلکہ چوہدریوں کا ہاتھ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح شجاعت حسین اگلے تین سال تک وزیراعظم رہ سکتے تھے۔ تاہم چوہدریوں نے اس کی سختی سے تردید کے علاوہ مذمت بھی کی تھی کہ جمالی نے اس طرح کیسے سوچ لیا تھا۔
جنرل مشرف کے قریبی ساتھی اور کنگ میکر طارق عزیز ان کے پہلے سے قریب تھے اور یوں مینار پاکستان پر ایک جلسہ کرایا گیا جس میں وزیراعلی پرویز الہی نے اپنی تقریر میں نعرہ لگایا کہ وہ دس دفعہ وردی میں جنرل مشرف کو صدر منتخب کرائیں گے۔ اس نعرے کا مقصد جنرل مشرف کویہ پیغام دینا مقصود تھا کہ اگر انہوں نے وردی کے ساتھ دس دفعہ بھی صدر بننا ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ انہیں اس نیک کام میں مدد کر سکتے تھے۔ اس سے پہلے پرویز الہی پنجاب اسمبلی سے ایک قرارداد پاس کرا چکے تھے کہ جنرل مشرف کو وردی کے ساتھ صدراتی انتخاب لڑنا چاہیے۔ جنرل مشرف کی ہمدردیاں جیتے کے لیے پرویز الہی نے اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات جنرل مشرف کے ساتھ اپنی اپنی تصویر سمیت دینے شروع کیے اور پنجاب حکومت کے خزانوں کا منہ اخبارات کے لیے کھول دیا گیا۔
پرویز الہی کا منصوبہ بڑی کامیابی سے ہو رہا تھا کیونکہ پنجاب کا نگران وزیراعلی بھی اس شخص کو بنایا گیا جس کا نام پرویز الہی نے دیا تھا تاکہ انتخابات میں وہ ان کی مدد کر سکے۔ پرویز الہی نے اس کے علاوہ دوسرے ان امیدواروں کو بھی ہرانے کا بندوبست کیا ہوا تھا جس سے انہیں خطرہ تھا کہ وہ انتخابات جیتے کے بعد ان کے راستے کی دیوار بن سکتے تھے۔ یوں فیصل صالح حیات، راؤ سکندر، ڈاکٹر شیر افگن، فاررق لغاری، ہمایوں اختر، خورشید قصوری جیسے لیڈروں کو ہرانے کا منصوبہ بھی بنوایا گیا اور ضلعی انتظامیہ سے کہا گیا کہ ان کی پارٹی کے ان لیڈروں کے مقابلے میں ضلعی ناظموں کا ساتھ دیا جائے۔ یوں بہت ساری سیٹیں ان کی پارٹی اس وجہ سے ہار گئی کیونکہ پرویز الہی کا اپنا گیم پلان تھا۔
تاہم بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی نے پرویز الہی کے منصوبے کو کسی حد تک ناکام بنا دیا۔ جب پرویز الہی کو پتہ چلا کہ جنرل مشرف تو بے نظیر بھٹو کے ساتھ مل کر شرکت اقتدار کا کھیل کھلینے والے تھے تو انہوں نے کھل کر ان کی مخالفت کی۔ پرویز الہی کو جب سارا کھیل اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا محسوس ہوا تو وہ بینظر بھٹو مخالفت میں کھل کر سامنے یہاں تک چلے گئے کہ جس دن بینظر بھٹو اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی لوٹیں اور ان کی ریلی پر بموں سے حملہ ہوا، تو بینظر نے سب سے پہلا الزام پرویز الہی پر لگایا اور یہاں تک اپنی کتاب میں لکھا جو ان کی موت کے بعد شائع ہوئی کہ ان کے ایک مخالف سیاسی گروپ کے سربراہ نے انہیں مروانے کے لیے کرائے کے قاتل ڈھونڈے تھے جنہیں پانچ لاکھ ڈالرز کی ادائیگی کی گئی تھی۔
بینظر نے اپنے اوپر ہونے والے حملے سے پہلے اور بعد میں ایک خط جنرل پرویز مشرف کو لکھ بھیجا کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو تین لوگ ان کی موت کے زمہ دار ہوں گے ان میں جنرل حمید گل اور بریگیڈیر اعجاز شاہ کے بعد تیسرا نام پرویز الہی کا تھا۔ یوں جب بینظر بھٹو ماری گئیں تو سب سے پہلا شک پرویز الہی پر گیا اور رہی سہی زرداری کی اس پریس کانفرنس نے پوری کر دی جو انہوں نے بلاول بھٹو کو پارٹی کا چیرمین بنانے کے بعد نوڈیرو میں کی اور کہا ق لیگ کو قاتل لیگ کہا۔
اس خطرناک صورت حال میں چوہدری شجاعت حسین نے اپنے کزن پرویز الہی کو ان خطرات سے نجات دلوانے کا فیصلہ کیا اور انہیں احساس ہوا کہ وقت آگیا تھا کہ صدر زرداری کو یاد دلایا جائے کہ بھٹو اور چوہدری ظہور الہی خاندان میں خونی دشمنی کے ہوتے ہوئے نواز شریف دور میں وزیرداخلہ کی حیثت سے انہوں نے صدر غلام اسحاق کی سخت ہدایات کے باوجود انہیں جیل کے دنوں میں کوئی تکلیف نہیں ہونے دی تھی۔ جب ایک قیدی زرداری کو کراچی سے اسلام آباد سینٹ کے اجلاس میں شرکت کے لیے لایا جاتا تھا تو وہ انہیں سہالہ ریسٹ ہاوس میں رکھتے جہاں انہیں اپنی بیوی بینظر بھٹو سے بھی ملنے اور رات گزارنے کی اجازت تھی۔ اس پر صدر اسحاق نے طنزیہ شجاعت کو کہا تھا کہ انہوں نے تو زرداری اور بینظر بھٹو کو نیا ہنی مون منانے کا موقع فراہم کیا ہوا تھا۔
اب سوال یہ پیدا ہورہا تھا کہ صدر زرداری کے دل سے یہ بات کیسے نکالی جائے کہ ان کی بیوی کے قتل میں چوہدری پرویز الہی کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ شجاعت کے ذہن میں ایک ہی شخص کا نام آیا جو اس اہم موقع پر ان کی ملاقات زرداری سے کرا کے ان کی دوریاں کم کرا سکتا تھا۔ اس کا نام ڈاکٹر قیوم سومرو تھا۔ اس دوران حکومت بننے کے بعد پنجاب میں شہباز شریف نے بھی چوہدریوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا لہذا سمجھدار چوہدری مرکز میں زرداری کی دشمنی تو پنجاب میں انتقام بھرے شریف سے جنگ افورڈ نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں شریف اور زرداری میں سے ایک کو دوست بنانا تھا۔ شریف برادرن سے انہوں نے کوشش کی لیکن بات نہ بنی اور انہوں نے الٹا مونس الہی کو پنجاب بنک سیکنڈل میں گھیسٹنے کی کوشش کی تو شجاعت کو پتہ چل گیا کہ اب بات نہیں بنے گی لہذا فیصلہ کیا گیا کہ بہتر ہوگا کہ زرداری سے تعلقات درست کیے جائیں اور یوں پہلی دفعہ چوہدری برادرز ، صدر زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر رات کے اندھیرے میں ملنے گئے اور ان سے کہا کہ وہ ان کی ملاقات زرداری سے کرائیں تاکہ غلط فہمیاں دور کرائی جا سکیں۔ اس ملاقات میں پنجاب حکومت کے مونس الہی اور ہمیش خان پر دباؤ کا بھی ذکر سامنے آیا۔ چوہدریوں کا خیال تھا کہ اگر ہمیشں خان کو پاکستان سے فرار کرا دیا جائے تو مونس کے خلاف کوئی کیس باقی نہیں رہے گا۔ تاہم مشکل یہ تھی کہ ہمیش خان کا نام اس وقت تک ای سی ایل پر ڈالا جا چکا تھا۔
ت
Bookmarks