Results 1 to 2 of 2

Thread: فتنہ انکار حدیث

  1. #1
    sibghati's Avatar
    sibghati is offline Advance Member
    Last Online
    6th April 2020 @ 07:38 AM
    Join Date
    30 Jun 2011
    Location
    ISLAMABAD
    Gender
    Male
    Posts
    2,460
    Threads
    342
    Credits
    69
    Thanked
    224

    Default فتنہ انکار حدیث

    فتنہ انکار حدیث


    " یاد رکھو مجھے الکتاب قرآن اور اس کے ساتھ اس جیسی ایک اور چيز یعنی (حدیث) دی گئی ہے-" (ابو داؤد)


    یہ فتنہ آج کا نہیں بلکہ یہ بہت پرانا فتنہ ہے اور آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن لوگوں نے احادیث کی مخالفت میں مختلف آراء پیش کیں کسی نے کہا:
    جو حدیث قرآن کے خلاف ہوگی وہ قبول نہیں کی جائے گی کسی نے کہا حدیث خبر واحد نہیں ہوگی کسی نے کہا جو حدیث امام کے قول کے خلاف ہوگی وا رد کی جائے گی- کسی نے ابو ہریرہ، انس بن مالک، سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ یہ راوی غیر فقیہ ہیں لہذا ان کی روایت کردہ احادیث مسترد ہونگی-
    ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایسے صحابی ہیں جن کی بیان کردہ اکثر احادیث فقہ کے مسائل کے خلاف ہیں اس لیے ان احادیث سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت رہ گئی تھی کہ ان کو ہی غیر فقیہ کہ دیا جائے- اس طرح حدیث کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا جن لوگوں نے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب صحیح بخاری کا نور بصیرت سے مطالعہ کیا ان پر یہ بات مخفی نہیں کہ جب امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا تو یہ دونوں سول ان کے ذھن میں موجود تھے کیونکہ فتنہ انکار حدیث صرف بیسویں صدی کا فتنہ نہیں- انکار حدیث کی نوعیت اور دلائل میں فرق ہوسکتا ہے اور ہے مگر معص حلقوں کی طرف سے حدیث پر نطر کرم امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ سے پہلے ہی موجود تھی اس لیے دیگر فقہاء و محدثين کے بر عکس امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سب سے پہلے اس بات کا تعین کیا کہ حدیث کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ بھی دین کا حصہ ہے؟ اور کیا اس کے انکار سے دین کا انکار لازم آتا ہےیا کہ محض تاریخ ہے؟ اگر یہ محض تاریخ ہے تو پھر اس کیلیے قریہ قریہ اور شہر شہر پھرنے اور حمع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
    اگر یہ دین نہیں ہے تو ایسی خدمت سر انجام دینے کا کیا فائدہ جس کا دین اسلام سے کوئی فائدہ نہیں ہے- لہذا صحیح بخاری میں احادیث جمع کرنے سے قبل امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے یہ ضروری سمجھا کہ پہلے یہ واضح کردیا جائے کہ حدیث وحی کا حصہ ہے اور اصولی طور پر حدیث کو وحی نہ ماننا کفر ہے- امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب الوحی وحی کا بیان اس کے بعد باب باندھا ہے "کیف کان بداءالوحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "- اس باب میں بداء کے معنی وحی اور وحی کی معنی دین ہے لہذا اس باب کے معنی یہ ہے کہ " دین کی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے نازل ہوئی تھی"-
    اس باب کے بعد امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے بتایا ایک وحی دین وہ تھی جو بصورت قرآن نازل ہوتی تھی- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وحی مجھ پر ایسے آتی ہے جیسے گھنٹے کی جھنکار ہوتی ہے اور یہ وحی مجھ پر بہت گراں ہمتی ہے اور فرشتے نے جو کہا ہوتا ہے مجھے یاد ہوچکا ہوتا ہے- عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب وحی نازل ہوتی تو شدید سردی میں بھی جب فرشتہ واپس جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینے کے قطرات ہوتے تھے- وحی کی یہ صورت قرآن کے نزول کی ہے یعنی وہ وحی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بصورت کتاب نازل ہوئی جسے قرآن مجید کہا جاتا ہے- اب دیکھنا یہ ہے کہ اس قرآن کی صورت میں جو وحی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتی تھی اور کیا اس وحی کا انکار کفر ہے کہ نہیں-
    امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی دین نازل ہوتی تھی اور اس کا کنکار کفر ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعلی نے فرمایا ہے:
    اے پیغمبر! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح ہم نے نوح اور اس کے بعد نبیوں پر بھیجی اور جس طرح ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب اور اولاد یعقوب علیہ السلام پر بھیجی اور عیسی، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان علیہ السلام پر بھیجی اور ہم نے داؤد علیہ السلام کو زبور دی- (النساء)
    اسی آیت میں انبیاء کا نام لے کر بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر دین کی وحی اسی طرح نازل ہوئی جیسے ان انبیاء سابقہ پر نازل ہوئی- ان انبیاء میں کئی نبی ایسے بھی ہیں جن کو کوئی کتاب نہیں ملی جب کہ وہ دین کے داعی تھے رسول تھے اور اس غیر کتابی وحی دین کا قوم نے انکار تو پوری قوم کافر ہوگئی نوح علیہ اسلام نے کہا:
    (( رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا))
    میرے رب زمین پر کافروں کا ایک گھر بھی باقی نہ چھوڑ- (سورۃ نوح)


    یہ لوگ جن کو نوح علیہ السلام نے کافر کہا اور ان کی تباہی و بربادی کے لیے اپنے رب سے دعا کی کون لوگ تھے؟ وہی جنہوں نے نوح ‏علیہ السلام پر غیر کتابی وحی کے نزول کا انکار کیا اور اللہ عزوجل نے فرمایا اے پیغمبر ہم نے تم پر اسی طرح وحی نازل کی جس طرح نوح علیہ السلام پر ناول کی اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر غیر کتابی وحی دین بھی نازل ہوتی تھی اور اس کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح قوم نوح نے کفر کیا یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی-
    یہ بات ثابت ہے کہ موسی علیہ السلام کو تورات اس وقت ملی جب آپ اسرائیل کو فرعون مصر سے نجات دلا کر دریائے نیل عبور کرچکے تھے-
    "اور ہم نے پہلی امتوں کے ہلاک کرنے کے بعد موسی کو کتاب دی جو لوگوں کے لیے بصیرت اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں"- ( سورۃ قصص: 43)
    اور فرعون کافر اسی وقت ہی قرار دیا گیا جب ابھی تورات نازل نہیں ہوئی تھی- فرعون اسے لیے کافر قرار پایا کہ اس نے موسی علیہ السلام پر جو غیر کتابی وحی نازل ہوتی تھی اسکا انکار کیا تھا- اس نے توریت کا کنکار نہیں کیا تھا کہ تورات تو اس کے غرق آب ہونے کے بہت بعد ملی- موسی اس وقت نبی نہیں تھے جب انہیں کوہ طور پر اللہ سے ہم کلام ہونے کا شرف ملا اس وقت نبی تھے جب فرعون کے پاس گئے تھے، اس وقت نبی تھے جب بنی اسرائیل کو لے کر دریا عبور کیا حالانکہ تورات موجود نہ تھی یہ وحی دین تھی جو تورات سے قبل بھی موسی علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی- اللہ نے فرمایا ہم نے اے پیغمبر تم پر بھی اسی طرح کی وحی نازل کی جس طرح موسی علیہ السلام پر نازل کی، تورات موسی علیہ السلام کو ملی وہی صاحب کتاب نبی تھے، ہارون علیہ السلام کس وحی کی بناء پر نبی تھے؟ شعیب، یونس، یعقوب، اسمعیل اور اسحق علیہ السلام نبی تھے ان کے پاس تو کوئی کتاب نہیں تھی پھر ان کی نبوت کس وحی کی بنیاد پر تھی اور ان کے مخالفین کیوں کافر تھے؟ ان سب انبیاء کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی جو کتاب کی شکل میں بھی ہے اور غیر کتابی صورت میں بھی ہے، دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے جس طرح عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:
    " میں ڈرتا ہوں کہیں بہت زمانہ گزر جائے اور لوگ یہ کہنے لگيں کہ ہم کو اللہ کی کتاب میں رجم کا حکم نہیں ملتا پھر اللہ نے جو حکم ٹھرایا ہے اس کو چھوڑ کر گمراہ ہوجائيں، دیکھو سن لو! جو محض مسلمان ہوکر زنا کرے اور زنا پر گواھ قائم ہوجائيں یا عورت کا حمل ظاہر ہو یا زنا کرنیوالا اقرار کرے تو اس کو رجم کریںگے- سفیان نے کہا مجھے تو یہ حدیث اسی طرح یاد ہے، سن لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زانی کو رجم کیا اور ہم نے بھی آپ کے بعد رجم کیا-" (بخاری جلد سوم- کتاب المحاربین، حدیث: 1733)
    اس روایت سے معلوم ہوا کہ کسی ایک وحی کا انکار پورے دین کا انکار ہے اور یہ بات کفر ہے جس طرح فرعون اور قوم نوح علیہ السلام غیر کتابی وحی کے انکار کی وجہ سے کافر قرار پائے تھے-
    اس وضاحت کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری لکھی تاکہ پڑھنے والا اس محض تاریخ کی کتاب نہ سمجھے بلکہ اسے اپنے دین اسلام کی بنیاد اور اصل سمجھ کر پڑھے اور ان احادیٹ کی اطاعت کرکے نجات پائے-
    اسلام میں حدیث کی اہمیت شائع کرنے کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اس بات کی وضاحت کی جائے کا حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر دین پر عمل نہیں ہوسکتا- اللہ تعالی ہم سب کو حق بات سمحھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے- (آمین- یا رب العالمین)

  2. #2
    sibghati's Avatar
    sibghati is offline Advance Member
    Last Online
    6th April 2020 @ 07:38 AM
    Join Date
    30 Jun 2011
    Location
    ISLAMABAD
    Gender
    Male
    Posts
    2,460
    Threads
    342
    Credits
    69
    Thanked
    224

    Default

    کیا 250سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟

    یہ صرف منکرین حدیث کا پروپیگنڈہ ہے خلفائے راشدین اورصحابہ نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیاپھر تابعین کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام تھے۔

    امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکا۔جس نے احادیث گھڑ کر صحیح احادیث میں شامل کرنے کی کوشش کی اسکی کوشش کامیاب نہ ہوسکی وہ جھوٹی روایت پکڑی گئی
    کیا صحابہ کرام نے بھی احادیث لکھیں ؟
    جی ہاں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھوائیں آپ نے عبداﷲ بن عمر سے فرمایا
    ’’احادیث لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی ‘‘۔(ابو داؤد جلد 1صفحہ 158)

    انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوۃ کے فرائض لکھ کر دیئے ۔(بخاری کتاب الزکوۃ ) حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب انس رضی اﷲ عنہ کے پوتے ثمامہ سے حاصل کی ۔(نسائی کتاب الزکوۃ)
    خلیفہ الثانی عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی زکوۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اﷲ عنہ کی کتاب پڑھی ۔(موطا امام مالک صفحہ 109)
    علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اﷲ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمکی احادیث ہیں ۔(بخاری و مسلم کتاب الحج )

    ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتاسوائے عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کے اسلئے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔(بخاری )

    عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی یہ کتاب ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی اوران کے پڑپوتے عمرو بن شعیب رحمۃ اﷲ علیہ سے محدثین رحمۃ اﷲ علیہ نے اخذکرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ایسے واقعات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث کو لکھا کرتے تھے ۔

    مثلاً عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے اسی اثناء میں آپ سے پوچھا گیا کہ کون سا شہر پہلے فتح ہوگا؟قسطنطنیہ یا رومیہ ؟آپ نے فرمایا ہرقل کا شہر قسطنطنیہ (دارمی صفحہ 126)

    کیارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟

    رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں

    (1) عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقۃ تحریر کروائی امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں آپ کی یہ کتاب عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے ا س کو پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے ا س کتاب کو عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتوں سالم اور عبداﷲ سے لے کر لکھوایا۔ (ابو داؤد کتاب الزکوۃ)

    (2) ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمرو بن عاص نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی (ترمذی ابواب الدعوات)

    (3) موسی بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ کیلئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی(الدارقطنی فی کتاب الزکوۃ) خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا(مصنف ابن ابی شیبہ نصب الرایہ کتاب الزکوۃ جلد 2صفحہ 352)

    (4) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کیلئے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی سعید بن مسیّب نے بھی اس کتاب کوپڑھا (نسائی جلد دوم صفحہ 218)

Similar Threads

  1. Replies: 22
    Last Post: 10th February 2016, 10:47 AM
  2. Replies: 3
    Last Post: 6th October 2011, 03:41 PM
  3. حدیث کی تعریف
    By HAQ ALLAH in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 1
    Last Post: 1st February 2011, 08:04 PM
  4. دجال کا فتنہ (by Saed Ahmed jalal puri Shaheed)
    By farazbaig in forum Halat-e-Hazra
    Replies: 8
    Last Post: 1st July 2010, 03:23 AM
  5. Replies: 5
    Last Post: 20th May 2009, 10:22 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •