یہ موضوع صدیوں سے زیرِ بحث ہے کہ مردوں اور عورتوں میں کیا فرق ہے، اور ان کے رویے میں اگر کوئی فرق نظر آتا ہے تو کیا اس کی وجہ جسمانی اور حیاتیاتی ہے یا معاشرہ لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت ایسے انداز میں کرتا ہے کہ ان کی شخصیتوں کی نشو ونما مختلف انداز میں ہوتی ہے؟’’وائس آف امریکہ ‘‘کے مطابق ہم نے اس موضوع پر تحقیق کی غرض سے اس سلسلے میں دنیا کے چوٹی کے ماہر سائمن بیرن کوہن سے بات کی جو کیمبرج یونی ورسٹی کے ڈیولپمنٹل پیتھو سائیکالوجی شعبے میں پروفیسر ہیں اور اوٹزم کے میدان میں دنیا بھر میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس موضوع پر ایک ’بیسٹ سیلنگ‘کتاب بھی تحریر کی ہے، ڈاکٹر سائمن کہتے ہیں کہ مردوں اور عورتوں کے دماغوں میں حیاتیاتی فرق ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں ایک ایک لفظ میں دونوں کے دماغ کو بیان کرنا چاہوں تو کہوں گا کہ عورت کا دماغ ’’ہمدردی‘‘ہے اور مرد کا دماغ ’’تجزیہ ‘‘پنی بات کی وضاحت انھوں نے یوں کی کہ عورتیں دوسرے لوگوں اور ماحول سے زیادہ ربط رکھنا پسند کرتی ہیں اور ان کی شخصیت کا سماجی پہلو مردوں کی نسبت کہیں مضبوط ہوتا ہے۔ وہ زیادہ آسانی سے چہرے کے تاثرات کو پہنچان لیتی ہیں اور دوسروں کی ذہنی کیفیات کو مردوں کی نسبت زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتی ہیں۔بچوں کہ انسانی سماجیات میں اظہار کاسب سے اہم آلہ زبان ہے، اس لیے عورتیں زبان کے معاملے میں بھی مردوں سے کہیں آگے ہوتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تحقیق کے مطابق لڑکیاں لڑکوں کی نسبت زیادہ جلدی بولنا شروع کر دیتی ہیں، اور زندگی کے دوسرے برس میں ان کا ذخیرہ الفاظ اپنے ہم عمر لڑکوں سے کہیں وسیع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سائمن کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا اس کے مقابلے پر لڑکوں میں چیزوں کا تجزیہ کرنے اور ان کے نظام کو سمجھنے کی جستجو لڑکیوں سے زیادہ ہوتی ہے۔وہ ہر چیز کے پیچھے کام کرنے والے نظام کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس پر کنٹرول حاصل کر سکیں۔ اس موقعے پر انہوں نے اس سوال پر کہ لڑکیوں اور لڑکوں کے رویے میں اس فرق کی وجہ ان کی مخصوص تربیت بھی تو ہو سکتی ہے۔ لیکن انھوں نے کہا کہ انھوں نے ایک ایسا تجربہ بھی کیا ہے جس میں ایک دن کے بچے اور بچیاں شامل کیے گئے تھے۔ ان نومولود بچوں کو انسانی چہرے کی اور ایک مشینی کھلونے کی تصویر دکھائی گئی۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ لڑکیاں انسانی چہروں کو نسبتاً زیادہ غور سے دیکھتی تھیں، جب کہ لڑکوں نے کھلونے میں زیادہ دل چسپی ظاہر کی۔ چوں کہ یہ بچے اتنے چھوٹے تھے کہ ان پر ماحول کا یا تربیت کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا، اس لیے ظاہر ہے کہ دونوں میں جو فرق ہے اس کی وجہ حیاتیاتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دماغ میں یہ فرق پیدا کیسے ہوتا ہے؟ ڈاکٹر سائمن کہ۰تے ہیں کہ ماں کے پیٹ کے اندر پرورش پانے والے بچوں میں مردانہ ہارمون ٹیسٹاسٹیرون کی ایک مخصوص مقدار پائی جاتی ہے۔ لڑکوں میں یہ مقدار زیادہ اور لڑکیوں میں کم ہوتی ہے۔ اسی ہارمون کا دماغ پر بھی اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے دماغوں کی نسوانی یا مردانہ خطوط پر نشو ونما ہوتی ہے۔ڈاکٹر سائمن اپنی تحقیق کو ایک قدم آگے بڑھا کر نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اوٹزم کا شکار بچے دراصل انتہائی مردانہ پن میں مبتلا ہوتے ہیں۔ چوں کہ ان کے دماغ میں ضرورت سے زیادہ مردانہ ہارمون پایا جاتا ہے اس لیے ان کی شخصیت کا سماجی پہلو بالکل پھلنے پھولنے نہیں پاتا۔اس کے مقابلے میں ان لوگوں میں کسی چیز کا نظام سمجھنے کی صلاحیت بیماری کی حد تک پائی جاتی ہے اور وہ زندگی کی عام اشیا میں بھی اس قدر غیر معمولی دل چسپی ظاہر کرتے ہیں کہ دنیا و مافیہا سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اوٹزم کے بعض مریض پوری کی پوری فون ڈائرکٹریاں اور ڈکشنریاں زبانی یاد کر لیتے ہیں، لیکن انھیں اپنے عزیزوں اور ملنے والوں سے سلام دعا کرنا بھی یاد نہیں رہتا۔ ٫٫٫٫٫٫٫٫٫٫ آپ کی دعاءوں کا طالبگار آصف
Bookmarks