Results 1 to 12 of 12

Thread: Columbus (Us ne Ya muslim ne America daryaaft kiya khuch aham haqaeq)

  1. #1
    Sabih.'s Avatar
    Sabih. is offline Advance Member
    Last Online
    9th November 2020 @ 08:52 AM
    Join Date
    19 Jun 2007
    Gender
    Male
    Posts
    4,829
    Threads
    382
    Credits
    681
    Thanked
    95

    Default Columbus (Us ne Ya muslim ne America daryaaft kiya khuch aham haqaeq)



    ہمیں یہی بتایاگیاہے کہ امریکہ کی دریافت مہم جوکرسٹوفر کولمبس نے کی لیکن کولمبس کی پہنچ سے کئی صدیاں قبل ہی مسلمانوں کے باقیات ،مسجدیں ،مدارس وہاں تھے ایسا کولمبس نے بھی تسلیم کیااوراپنی کتاب میں اظہار بھی کیاہے چنانچہ اس نئی دنیا کی دریافت کے وقت بھی مسلمانوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔۔یہ تاریخی واقعات اسقدر دلچسپ ہیں کہ ان کے اقتباسات سے گریز کررہاہوں۔۔۔۔۔ ابو شامل کے شکرگزار ہیں جنہوں نےان واقعات کواردو زبان میں یکجا کیا۔




    امریکہ کیونکہ فی زمانہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی و عسکری قوت ہے جس کا دنیا بھر کے معاملات پر اس اثر و رسوخ ہے اور اس کی اہمیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اس لیے اس کی تاریخ بھی دنیا بھر کے لیے اتنی ہی اہمیت کی حامل ہے، قصہ مختصر یہ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی میں امریکہ کا طوطی بول رہا ہے۔ وطن عزیز میں رہنے والا عام چند جماعت پاس شخص بھی، جو اپنی تاریخ سے واجبی سی واقفیت بھی نہیں رکھتا، امریکہ کی دریافت کے حوالے سے سوال پر فوری جواب دے گا “کولمبس!”
    تاریخ کا ایک ایسا کردار جس کے کارنامے نے دنیا کی تاریخ پر عظیم اثرات مرتب کیے، جس کا یہ واحد کارنامہ دنیا میں کی بالادستی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور یورپ نے محض دو صدیوں میں ہر شعبہ ہائے زندگی سے مسلمانوں کو باہر کر کے اپنی برتری قائم کر لی اور مسلمان ایک طویل نوآبادیاتی دور کے بعد موجودہ جدید ‘ذہنی’ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیے گئے۔ اس بات سے قطع نظر کہ امریکہ دریافت کرنا اس کا کارنامہ تھا یا نہیں یہ امر بہرحال تسلیم شدہ ہے کہ اس کا سفرِ امریکہ دنیا کی تاریخ کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔
    “امریکہ کی دریافت” کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل مبارک علی صاحب کے ایک مضمون کا ترجمہ کر کے پیش کیا تھا جس پر یہ فرمائش کی گئی کہ امریکہ کی دریافت کے حوالے سے جو دیگر نظریات (خصوصاً مسلمانوں سے متعلق) پائے جاتے ہیں ان کے بارے میں بھی لکھا جانا چاہیے، سو اس موضوع پر کچھ نظریات سامنے لانے کی کوشش کی ہے ، امید ہے یہ حقیر سی کوشش تاریخ کو دوسرے زاویے سے سمجھنے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہوگی۔ مقصد صرف زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا اور پہنچانا ہے، کسی کے نظریے سے کلی اختلاف یا اتفاق کرنا نہیں۔ فی الوقت میرا موضوع امریکہ کی دریافت کے وہ دعوے ہیں جو مسلمانوں سے منسوب ہیں۔
    کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی مبینہ دریافت دنیا کی تاریخ کا اتنا اہم واقعہ ہے کہ مورخین اِس سرزمین کی تاریخ کو ہی دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ایک قبل از کولمبس (Pre-Columbus Era)
    اور دوسرا بعد از کولمبس
    (Post-Columbus Era)
    ۔ تاریخ انسانی کے اس واقعے کی عظمت کا تقاضا ہے کہ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ دعوے اور نظریات سامنے آئیں تاکہ حقیقت کا علم ہو سکے اور اس موضوع کا مکمل احاطہ بھی ہو سکے۔
    امریکہ دریافت کرنے کے حوالے سے مسلمانوں نے جتنے دعوے کیے ان کا سہرا اندلس، چین اور افریقہ کے مسلمانوں کو سر باندھا گیا ہے۔ اس نظریے کے حامل مورخین کا دعویٰ یہ ہے کہ 9 ویں سے 14 ویں صدی عیسوی تک اندلس اور المغرب (مراکش) کے مسلمان جہاز رانوں نے بحر اوقیانوس میں دور دور تک جہاز رانی کی اور اس دوران انہوں نے امریکی براعظم تک بھی رسائی حاصل کی۔
    ان مسلمانوں نے تاریخ میں پہلی بار بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے اس پار نئی دنیا سے رابطے کا آغاز کیا۔ ان دعووں کے حق میں یہ مورخین کئی دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔
    سب سے پہلے ان دلائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو قرون وسطٰی کے مسلمان دانشوروں کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ مسلم جہاز رانوں کی امریکہ تک رسائی کا سب سے پہلا حوالہ ہمیں علی المسعودی (871ء تا 957ء) کی “مروج الذہب و معادن الجوہر” میں ملتا ہے جس میں انہوں نے بحر اوقیانوس میں ایک نامعلوم سرزمین کا ذکر کیا ہے اور اتنی کتاب میں اسے “ارض مجہولہ” کا نام دیا ہے۔ انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ خلیفہ اندلس عبدالرحمن ثالث کے دور میں ایک مسلم جہاز راں خشخش ابن سعید ابن اسود نے 889ء میں دیلبا (موجودہ پیلوس) سے سفر کا آغاز کیا اور بحر اوقیانوس کے اُس پار ایک “ارض مجہولہ: (نامعلوم سرزمین) پر پہنچے اور انواع و اقسام کے خزانوں کے ساتھ واپس لوٹے۔ المسعودی کے مرتب کردہ دنیا کے نقشے میں افریقہ کے جنوب مغرب میں سمندر میں ایک بہت بڑا قطعہ زمین دکھایا گیا ہے جسے “ارض مجہولہ” کہا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مسلمان براعظم امریکہ کی موجودگی سے کولمبس کی دریافت سے 5 صدی قبل واقف تھے
    ایک اور مسلم مورخ ابو بکر ابن عمر الغطیہ کے مطابق فروری 999ء میں اندلس میں اموی حکمران ہشام ثانی کے دور میں غرناطہ سے تعلق رکھنے والے ایک مسلم جہاز راں ابن فرخ کناری جزائر پہنچے اور وہاں سے مغرب کی جانب بحر اوقیانوس میں سفر کا آغاز کیا اور دو ایسے جزائر پر پہنچے جنہیں اب کپراریا اور پلوتانا کہا جاتا ہے۔ وہ مئی 999ء میں غرناطہ واپس پہنچے۔
    قبل از کولمبس تاریخ میں مسلمانوں کے “نئی دنیا” سے روابط کے حوالے سے سب سے اہم حوالہ مشہور مسلم جغرافیہ دان اور خرائط ساز محمد الادریسی (1110ء تا 1166ء) کی کتاب “نزہت المشتاق” سے دیا جاتا ہے جس میں انہوں نے بحر اوقیانوس اور “نئی دنیا” کی تلاش کے لیے مسلم جہاز رانوں کی کوششوں کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں کہ:

    مسلمانوں کے سپہ سالار علی ابن یوسف ابن تاشفین نے اپنے امیر البحر احمد ابن عمر کو بحر اوقیانوس کے مختلف جزائر پر حملے کے لیے بھیجا لیکن وہ اس حکم کی تعمیل سے قبل ہی انتقال کر گئے۔
    بحر ظلمات کے اُس پار کیا ہے؟ اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ کسی کے پاس اس کا درست علم نہیں کیونکہ اس سمندر کو پار کرنا بہت مشکل ہے۔ اس پر دھند کے گہرے بادل چھائے رہتے ہیں، اس کی لہریں بہت طاقتور ہیں، یہ خطرات سے پُر ہے اور اس میں ہواؤں کے تیز جھکڑ چلتے ہیں۔ بحر ظلمات میں بہت سے جزائر ہیں جن میں سے متعدد غیر آباد ہیں اور دیگر پر سمندر کی لہریں غالب آتی رہتی ہیں۔ کوئی جہاز راں ان میں داخل نہیں ہوتا بلکہ ان کے ساحلوں کے قریب سے ہوتا ہوا گزر جاتا ہے۔
    لزبن کے قصبے سے اس مہم کا آغاز کیا گیا جسے “مغررین” کا نام دیا گیا اور وہ بحر ظلمات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کے لیے نکل پڑے، تاکہ یہ جان سکیں کہ اس سمندر کا خاتمہ کہاں ہوتا ہے؟۔ 12 دن کے سفر کے بعد وہ ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جو غیر آباد دکھائی دیتا تھا لیکن وہاں زرعی علاقے موجود تھے۔ وہ ان جزائر پر اترے لیکن جلد ہی ایسے افراد کے گھیرے میں آ گئے اور گرفتار کر لیے گئے جن کی جلد کا رنگ سرخ تھا، جسم پر بہت زیادہ بال نہیں تھے اور سر کے بال سیدھے تھے اور قامت بہت بلند تھی۔


    ادریسی کا “سرخ رنگت کے حامل افراد” کا حوالہ دینا اس امر کا شاہد سمجھا جاتا ہے کہ یہ قافلہ دراصل ان افراد کی سرزمین پر پہنچا تھا جنہیں کولمبس نے “سرخ ہندی (Red Indians) کا نام دیا تھا۔
    ان کے علاوہ افریقہ میں واقع سلطنت مالی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں سے بھی مسلمان جہاز رانوں کا ایک قافلہ بحر ظلمات کو عبور کر کے امریکی سرزمین تک پہنچا تھا۔ اس مہم کا ذکر مسلم مورخ شہاب الدین ابو عباس احمد بن فضل العمری کی کتاب “مسالک الابصار فی ممالیک الامسار” میں ملتا ہے۔
    رفتہ رفتہ مسلمانوں کی جانب سے امریکہ کی دریافت کے نظریات اتنی زیادہ اہمیت اختیار کر گئے کہ 1969ء میں ناروے کے ایک مہم جوتھور ہیئرڈیہل
    (Thor Heyerdahl)
    نے شمالی افریقہ کی بندرگاہ صافی سے بارباڈوس، ویسٹ انڈیز تک کا سفر ایسی کشتی کے ذریعے کیا جسے مقامی افریقی باشندوں نے پیپیرس سے بالکل اس طریق پر تیار کیا تھا جس طرح قرون وسطٰی میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس سفر کے ذریعے انہوں نے ثابت کیا کہ قرون وسطٰی میں افریقہ سے نئی دنیا تک سفر ممکن تھا
    علاوہ ازیں چینی مسلمانوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت بھی ایک اہم نظریہ ہے اور اس کا سہرا منگ دور حکومت میں معروف مسلم جہاز راں “ژینگ ہی” کے سر باندھا جاتا ہے۔ انہوں نے یہ کارنامہ مبینہ طور پر 15 ویں صدی میں کولمبس سے قبل اس دور میں انجام دیا جب چین نے تجارتی راستوں پر اپنے قدم جمانے کے لیے 7 بحری مہمات کا آغاز کیا تھا۔مہم کی قیادت ژینگ ہی کے سپرد کی گئی ۔ ایک یورپی مورخ
    Gavin Menzies
    نے اپنی متنازع کتاب
    1421: The Year China Discovered the World
    میں اس کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اس نظریے کے حامی افراد 1421ء کو چینیوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کا سال سمجھتے ہیں اس لیے مخالفین اسے 1421 Hypothesis
    کہتے ہیں۔
    علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کولمبس نے 1492ء میں جب امریکہ دریافت کیا تو اس کی اس مہم میں کئی مسلمان جہاز راں بھی شامل تھے۔ اور کولمبس کے بیٹے فرنانڈو کولون نے اپنی کتاب تو یہاں تک کہا تھا کہ اسے جینووا کے مسلمان جہاز رانوں نے ہی بتایا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سفر کر کے متبادل راستے کے ذریعے ہندوستان پہنچ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کی “دریافت” کے اس تاریخی سفر میں دو ایسے جہاز راں بھی کولمبس کے ہمراہ تھے جن کے اجداد مسلمان تھے۔ ان جہاز رانوں کے نام مارٹن الونسو پنزون
    Martin Alonso Pinzon
    اور ویسنٹ یانیز پنزون
    Vicente Yanex Pinzon
    تھے جو بالترتیب PINTA اور NINA جہازوں کے کپتان اور آپس میں بھائی تھے۔ یہ دونوں امیر کبیر اور ماہر کاریگر تھے اور سفر کے دوران انہوں نے پرچم بردار جہاز SANTA MARIA
    کی مرمت بھی کی تھی۔ پنزون خاندان کا تعلق مرینی خاندان کے سلطان ابو زیان محمد ثالث (1362ء تا 1366ء) سے تھا۔
    کولمبس کا بیٹا فرنانڈو کولون یہ بھی لکھتا ہے کہ پوائنٹ کاویناس کے مشرقی علاقوں میں رہنے والی آبادی سیاہ فام تھی اور اسی علاقے میں ایک مسلم نسل کا قبیلہ “المامی” بھی آباد تھا۔ مینڈینکا اور عربی زبان میں المامی “الامام” یا “الامامو” سے مشتق لگتا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مذہبی یا قبائلی یا برادری کی سطح پر اعلٰی حیثیت کے حامل تھے۔
    کئی مسلم حوالہ جاتی کتب میں شیخ زین الدین علی بن فضل الماژندرانی کے بحر ظلمات کے سفر کا ذکر ملتا ہے۔ جنہوں نے مرینی خاندان کے چھٹے حکمران ابو یعقوب سیدی یوسف (1286ء تا 1307ء) میں طرفایہ (جنوبی مراکش) سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور تقریباً 1291ء میں بحیرہ کیریبین میں واقع سبز جزیرے (Green Island) پر پہنچے۔ ان کے بحری سفر کی تفصیلات اسلامی حوالہ جات اور کئی مسلم دانشوروں کی کتب میں تاریخی واقعے کی حیثيت سے درج ہیں۔
    کولمبس نے 21 اکتوبر 1492ء بروز پیر کیوبا کے شمال مشرقی ساحلوں پر جبارا کے قریب ایک پہاڑ کی چوٹی پر ایک مسجد کی موجودگی کا بھی ذکر کیا ہے۔ علاوہ ازیں کیوبا، میکسیکو، ٹیکساس اور نیواڈا میں مسجدیں اور قرآنی آیات سے مزین میناروں کی باقیات بھی دریافت ہوئی ہیں۔ کولمبس نے ٹرینیڈاڈ میں مقامی باشندوں کی خواتین کے لباس کا ذکر جس طرح کیا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں مسلمان بھی موجود تھے اور اس کے بیٹے نے تو واضح طور پر لکھا ہے کہ ان کا لباس غرناطہ کی مسلمان خواتین جیسا ہی ہے۔
    جدید مصنفین نے بھی اس موضوع پر خاصا کام کیا ہے جن میں بیری فیل، ایوان وان سرتیمی اور الیگزینڈ وان ووتھینو شامل ہیں۔ آخر الذکر جرمن مصنف کا کہنا ہے کہ کولمبس سے پہلے افریقہ، ایشیا اور یورپ سے تعلق رکھنے والے مختلف النسل افراد نئی دنیا میں موجود تھے تاہم انہوں نے مسلمانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی کو تسلیم کیا ہے۔

  2. #2
    Sabih.'s Avatar
    Sabih. is offline Advance Member
    Last Online
    9th November 2020 @ 08:52 AM
    Join Date
    19 Jun 2007
    Gender
    Male
    Posts
    4,829
    Threads
    382
    Credits
    681
    Thanked
    95

    Default


    ڈاکٹر بیری فیل نے اپنی کتاب
    Saga America
    میں ٹھوس شواہد دے کر ثابت کیا ہے کہ شمالی اور مغربی افریقہ کے مسلمان کولمبس کی آمد سے صدیوں قبل نئی دنیا میں پہنچ گئے تھے۔ انہوں نے ویلی آف فائر، ایلن اسپرنگز، لوگومارسینو، کی ہول، کینین، واشو اور ہکیسن سمٹ پاس (نیواڈا)، میسا ورڈی (کولوراڈو)، ممبریس ویلی (نیو میکسیکو) اور ٹپر کینو (انڈیانا) میں مسلم مدارس کی باقیات دریافت کیں جن کا تعلق 700 سے 800 صدی عیسوی سے ہے۔ باقیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مدارس میں ریاضی، مذہب، تاریخ، جغرافیہ، علم ہیئت اور جہاز رانی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اُن کے مطابق امریکہ (484) اور کینیڈا (81) میں 565 مقامات (دیہات، قصبات، شہر، پہاڑ، جھیل اور دریا وغیرہ) ایسے ہیں جن کے نام دراصل اسلامی و عربی النسل ہیں۔ ان مقامات کے نام قبل از کولمبس دور میں رکھے گئے۔
    ایوان وان سرتیما نے 1976ء میں اپنی کتاب
    They Came Before Columbus
    میں افریقی لوگوں کے براعظم امریکہ سے روابط کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیز، زمورس، مرابطین اور مرابیوس کے نام اس امر کے شاہد ہیں کہ قبل از کولمبس دونوں براعظموں کے آپس میں تعلقات تھے خصوصاً مرابطین کا نام ان کے لیے کشش کا حامل رہا کیونکہ مرابطین المغرب میں مسلمانوں کی معروف حکومت تھی۔
    اس کے علاوہ عثمانی دور کے معروف ترک جہاز راں و امیر البحر پیری رئیس کے بنے ہوئے جو اعلٰی ترین نقشے آج تک موجود ہیں ان میں ایک نقشہ ایسا بھی ہے جس میں بحر اوقیانوس کے اُس پار برازیل کا علاقہ دیکھا جا سکتا ہے حالانکہ اس وقت کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کا چرچا بھی نہ ہوا تھا۔ پیری رئیس کا یہ قدیم نقشہ انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ یہ ان تمام شواہد پر بھاری ہے جو مورخین کولمبس سے قبل مسلمانوں کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کے بارے میں دیتے رہے ہیں۔
    (اس مضمون کی تیاری میں مختلف حوالہ جات اور کتب سے مدد لی گئی ہے جن تک مضمون میں دیے گئے روابط کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے)۔


    بڑی شخصیات عام طور پر قوموں کے عروج کی نمائندہ ہوتی ہیں اس لیے مورخین ان کی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کے لیے ان کی کامیابیوں کو نمایاں کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو غیر معمولی اور عوام کے لیے
    سود مند ثابت کرنے کی کوششوں میں جتے رہتے ہیں۔
    مزید برآں انہیں لافانی حیثیت دینے کے لیے عوامی مقامات پر ان کے مجسمے نصب کیے جاتے ہیں؛ ان کی کامیابیوں کو نمایاں کرنے کے لیے تصاویر پیش کی جاتی ہیں؛ ممالک، شہر، ادارے اور سڑکیں ان سے موسوم کی جاتی ہیں؛ ان کی عظمت کی تشہیر کے لیے کتابیں لکھی جاتی ہیں، ان کی شجاعت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نظمیں تخلیق ہوتی ہیں اور ڈاک ٹکٹ اور کرنسی نوٹ بھی شائع کیے جاتے ہیں۔ ہیرو سازی (Hero-making) کے اس عمل میں انہیں روایتی اخلاقیات سے بالاتر ثابت کرنے کے لیے ان کے کمزوریوں اور جرائم سے بھی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ اگر ان سے کوئی جرم سرزد بھی ہوا ہوتو وہ انسانیت کے وسیع تر مفاد میں تھا اور اس لیے اس سے مکمل تجاہل برتا جانا چاہیے۔۔
    کرسٹوفر کولمبس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا. 1506ء میں غربت کے ہاتھوں گمنام موت کا شکار ہونے والے کرسٹوفر کولمبس رفتہ رفتہ ہیرو کے درجے پر پہنچ گیا کیونکہ یہ یوروامریکن باشندوں کے لیے وقت کی ضرورت تھی؟ کرکپیٹرک سیل نے اپنی کتاب”
    Conquest of paradise: Christopher Columbus and the Columbian Legacy”
    میں اس شخص کے ابھرتے ہوئے افسانے کا سراغ لگایا ہے جسے ‘دریافت کرنے والا جہاز راں اور سیاح’ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا گیا۔
    اپنی موت کے فوراً بعد وہ ایسے کپتان کی حیثیت سے مشہور ہوا جو کامیابی سے یورپ سے امریکہ پہنچا اور قدیم دنیا کو نئی دنیا سے منسلک کیا۔ وہ نو دریافت شدہ علاقوں سے دولت کے انبار سمیٹ کر لایا۔ ایک عام سے کپتان کا تاثر اس وقت مکمل طور پر تبدیل ہو گیا جب یورپی ہجرت کر کے امریکہ پہنچے اور وہاں قیام اختیار کیا، کولمبس ایک ایسے شخص کی حیثیت میں ابھر کر آیا جس نے دنیا کا ایک چوتھائی حصہ یورپ کو عطا کیا جہاں انہوں نے اپنی اضافی آبادی کو منتقل کیا۔
    17ویں اور 18 ویں صدی میں نئی دنیا میں رہائش اختیار کرنے والے اور قدیم مقامی آبادی کے علاقوں پر قبضہ کرنے والے افراد، خصوصاً یورپ میں زیر عتاب رہنے والے مذہبی فرقوں کے لیے کولمبس ایسی عظیم شخصیت تھی جس نے انہیں مشکل سے بچایا اور انہیں ایسا محفوظ مقام فراہم کیا جہاں وہ آزادی سے اپنے ایمان کے مطابق زندگی گذار سکتے ہیں۔ 19 ویں صدی میں جب مورخین نے ہسپانوی ادبی ذخائر میں موجود قدیم دستاویزات کا مطالعہ کیا تو اس کی سفری مہمات کو اس کی کامیابیوں کے ساتھ بیان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہیرو سازی کا یہ عمل مکمل ہوا
    شمالی اور جنوبی امریکہ میں ہیرو کی حیثیت سے اس کے تاثر کو وسیع پیمانے پر پھیلایا گیا۔ اس کی “خدمات” کے عوض میں شہروں، اداروں اور سڑکوں کے نام اس سے موسوم کیے گئے۔ ایک عہد ساز شخصیت کی حیثیت سے تاریخ دانوں نے امریکہ کی تاریخ کو دو ادوار ‘قبل از کولمبس’ اور ‘بعد از کولمبس’ میں تقسیم کر دیا۔ 1963ء میں امریکی کانگریس نے یوم کولمبس کو قومی دن قرار دیا۔ اسکولوں کی نصابی کتب میں اسے ایک ‘دریافت کرنے والی’ شخصیت کے طور پر پیش کیا گیا اور ان حقائق سے پردہ پوشی کی گئی کہ مذکورہ براعظم 1492ء سے عرصہ قبل چینیوں سمیت کئی قوموں نے دریافت کر لیا تھا۔ اسے عیسائیت کے پشتیبان کے طور پر پیش کیا گیا جس نے عثمانی ترکوں اور ان کی بحری قوت کو للکارا۔ اس کا نیا امیج ایک انسان دوست کا تھا، ایک ایسا شخص جس نے ترقی کی راہوں پر یورپیوں کی رہنمائی کی اور ان کی تہذیب کو فروغ دیا۔
    اس کا یہ تاثر (امیج) جدید عہد تک مسلمہ رہا۔ قدیم سرخ ہندی (Red Indian) باشندے جنہیں مظالم کا شکار بنایا گیا تھا وہ اس حیثیت میں نہیں تھے کہ یورپ نواز تاریخی تحاریر کا جواب دے پاتے جو ان کے خلاف تعصب سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ کے اس متعصب اور تحقیر آمیز انداز کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے ان کے پاس کچھ نہیں تھا۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مقامی دانشور ابھرے جنہوں نے امریکی تاریخ دانوں اور سیاسی کارکنوں کے تعاون سے ایک ہیرو کی حیثیت سے کولمبس کے افسانوی تاثر کو للکارا۔
    1992ء میں کولمبس کی امریکہ آمد کی 500 ویں سالگرہ کے موقع پر مقامی سرخ ہندیوں اور ان کے حامیوں نے زبردست احتجاج کیا اور تاریخی کتابوں کی بنیاد پر کولمبس کے متضاد تاثر کو سامنے لائے۔ ان کا دلیل یہ تھی کہ جس شخص نے مقامی آبادی کے ساتھ بدترین سلوک اختیار کیا، انہیں قتل کیا اور غلام بنایا حالانکہ انہوں نے اس کا ساتھیوں سمیت خیرمقدم کیا تھا اور انہیں کھانا اور رہائش بھی فراہم کی؛ ایسی شخصیت کو اس عظمت کا مستحق قرار نہیں دیا جا سکتا

  3. #3
    Sabih.'s Avatar
    Sabih. is offline Advance Member
    Last Online
    9th November 2020 @ 08:52 AM
    Join Date
    19 Jun 2007
    Gender
    Male
    Posts
    4,829
    Threads
    382
    Credits
    681
    Thanked
    95

    Default


    اپنے پہلے سفر پر اس نے مقامی باشندوں کو اغوا کیا اور انہیں اسپین لے جاکر بطور غلام ہسپانوی حکمرانوں کو تحفتاً پیش کر دیا۔ اس نے مقامی آبادی سے حتی الامکان سونا حاصل کیا۔ اس کے اپنے مطابق: “سونا سب سے شاندار ہے؛ سونا خزانے تشکیل دیتا ہے، اور جس کے پاس یہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر سکتا ہے، حتٰی کہ روحوں کو جنت بھی لے جا سکتا ہے”۔ 1495ء میں جب وہ ہیٹی پہنچا تو اراوک قبیلہ اس کے مظالم کا نشانہ بنا۔ “سپاہیوں نے گولیوں کی بوچھاڑ سے درجنوں کو ٹھکانے لگا دیا، چھوڑے گئے کتے ان کے سینے اور پیٹ چیر پھاڑ دیتے، اور جھاڑیوں میں چھپے مفرور مقامی باشندوں کا پیچھا کرتے”۔ اس بدترین قتل عام کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال کے اندر اندر ہیٹی کی نصف آبادی کا خاتمہ ہو گیا۔ 1650ء تک ہیٹی میں کوئی مقامی باشندہ نہ بچا۔
    اپنے 1493ء کے سفر میں کولمبس نے بطور انعام اپنے افسران کو مقامی عورتوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی پیشکش کی۔ ہیٹی میں غلاموں کے ہسپانوی باشندوں کے ساتھ زبردستی جنسی تعلقات استوار کرائے جاتے۔ اس نے اپنے ایک دوست کو انتہائی مسرت کے عالم میں لکھا: “کسی عورت کے لیے ایک سو قشتالوی (castellanies) بالکل اسی طرح با آسانی حاصل کیے جا سکتے ہیں جیسے کھیت کے لیے، یہ بہت عام ہے اور اور ایسے بہت سے دلال ہیں جو لڑکیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں؛ نو سے دس سالہ لڑکیوں کی بہت زیادہ طلب ہے”۔ مقامی باشندوں کے مصائب و آلام یہیں ختم نہیں ہوئے۔ کولمبس کے بعد کورٹ اور پزارو جیسے دیگر ظالم اور لالچی ہسپانوی “فاتحین” آئے جنہوں نے نہ صرف مقامی آبادی کا قتل عام کیا بلکہ ان کی دولت اور وسائل کو بھی لوٹ لیا۔ ایزٹک اور انکا کی عظیم تہذیبوں کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا۔ شمالی امریکہ کے یورپی مہاجرین نے زبردستی مقامی قدیم آبادی کی زمینوں پر قبضہ کر لیا اور ان کو بے یار و مددگار صورتحال میں جھوڑ دیا۔
    کسی بھی روایتی تاریخ کی کتاب میں پیش نہ کیے جانے والے اس نئے مواد کی بنیاد پر دانشور اور سیاسی کارکنان نے اس کے ہیرو کے امیج کے خلاف زبردست تحریک سے موازنہ شروع کیا۔ یورپیوں کی آمد کے 500 سال مکمل ہونے کے جشن کے خلاف کئی کتب لکھی گئیں، پمفلٹ تقسیم کیے گئے اور اخبارات میں مقالے لکھے گئے، ورکشاپس کا انعقاد کیا گیا اور مظاہرے کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تصویر کا دوسرا رخ ابھر کر سامنے آیا اور عوام کو کولمبس کے بارے میں اپنا نقطۂ نظر تبدیل کرنا پڑا۔
    کچھ لوگوں کے لیے وہ ایک ہیرو ہے، ایک ایسا شخص جو امید اور الہام لے کر آیا، لیکن چند کے نزدیک وہ مقامی آبادی کے لیے تباہی، مصائب و آلام اور اذیت لے کر آیا، جس نے انہیں نہ صرف اپنی زمینوں سے بے دخل کیا بلکہ اپنی ثقافت اور تہذیب سے بھی محروم کر دیا۔ کیا وہ واقعی ایک ہیرو کہلانے کے قابل ہے؟
    ترجمہ: ابوشامل

  4. #4
    Join Date
    09 Apr 2009
    Location
    KARACHI&
    Gender
    Male
    Posts
    19,366
    Threads
    419
    Credits
    39,831
    Thanked
    1813

    Default

    محترم دوست آپ نے بہت اچھی معلومات ہمارے ساتھ شئیر کیں ہیں شکریہ
    اگر آپ اس انگریزی کتاب کا نام اور جو ترجمعہ کیا گیا ہے اس کا نام اور ریفرینس بھی دے دیں تو اچھا ہوگا
    اگر کتاب اردو میں پڑھنے کو مل جائے ای بک کی شکل میں یا اسکرین کی ہوئی تو اور بھی اچھی بات ہوگی
    اگر مناسب لگے تو
    آپ کی مذید اچھی اچھی شئیرینگ کا انتظار رہے گا
    ابھی میں نے اس کو کچھ پڑھ لیا ہے سارا نہیں
    مگر محفوظ کر لیا ہے پڑھونگا ضرور
    ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا شکریہ

  5. #5
    waqasahmad1's Avatar
    waqasahmad1 is offline Advance Member
    Last Online
    14th May 2023 @ 11:51 PM
    Join Date
    27 Nov 2010
    Location
    Lahore
    Gender
    Male
    Posts
    8,021
    Threads
    280
    Credits
    73
    Thanked
    599

    Default


  6. #6
    Sabih.'s Avatar
    Sabih. is offline Advance Member
    Last Online
    9th November 2020 @ 08:52 AM
    Join Date
    19 Jun 2007
    Gender
    Male
    Posts
    4,829
    Threads
    382
    Credits
    681
    Thanked
    95

    Default

    Quote haseeb alamgir said: View Post
    محترم دوست آپ نے بہت اچھی معلومات ہمارے ساتھ شئیر کیں ہیں شکریہ
    اگر آپ اس انگریزی کتاب کا نام اور جو ترجمعہ کیا گیا ہے اس کا نام اور ریفرینس بھی دے دیں تو اچھا ہوگا
    اگر کتاب اردو میں پڑھنے کو مل جائے ای بک کی شکل میں یا اسکرین کی ہوئی تو اور بھی اچھی بات ہوگی
    اگر مناسب لگے تو
    آپ کی مذید اچھی اچھی شئیرینگ کا انتظار رہے گا
    ابھی میں نے اس کو کچھ پڑھ لیا ہے سارا نہیں
    مگر محفوظ کر لیا ہے پڑھونگا ضرور
    ہمارے ساتھ شئیر کرنے کا شکریہ
    آپ کے خوبصورت الفاظ پر مبنی کمنٹس پڑھ کر بہت لطف آیا۔میں کوشش کروں گا کہ اس بابت مزید پیش رفت ممکن ہوسکے،مصنف ابوشامل نے بہت ساری کتب سے ترجمعہ کیاہے جو مجھے ازحد پسند اور حقیقت کے بہت قریب محسوس ہوا۔

  7. #7
    Prince4 is offline Senior Member
    Last Online
    30th October 2012 @ 06:38 PM
    Join Date
    30 Jul 2011
    Gender
    Male
    Posts
    1,574
    Threads
    99
    Thanked
    23

    Default

    nice

  8. #8
    Join Date
    21 Dec 2008
    Location
    Faisalabad
    Age
    41
    Gender
    Male
    Posts
    2,588
    Threads
    104
    Credits
    4,372
    Thanked
    173

  9. #9
    shafiullahkhan's Avatar
    shafiullahkhan is offline Senior Member+
    Last Online
    7th March 2017 @ 10:16 PM
    Join Date
    28 Nov 2009
    Posts
    243
    Threads
    6
    Credits
    368
    Thanked
    7

    Default

    thanx

  10. #10
    Zohaib Ilyas's Avatar
    Zohaib Ilyas is offline Advance Member
    Last Online
    3rd November 2020 @ 12:37 PM
    Join Date
    26 Jan 2013
    Location
    Lahore
    Gender
    Male
    Posts
    2,230
    Threads
    129
    Credits
    1,417
    Thanked
    77

    Default

    nice

  11. #11
    sorry2say is offline Senior Member+
    Last Online
    20th October 2015 @ 12:17 AM
    Join Date
    18 Jan 2011
    Location
    Lahore
    Age
    33
    Gender
    Male
    Posts
    271
    Threads
    12
    Credits
    940
    Thanked
    6

    Default

    OR SACHI MA NE SARI POST READ KI HY

  12. #12
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,912
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    اعلی

Similar Threads

  1. Replies: 10
    Last Post: 21st December 2009, 09:27 PM
  2. Replies: 10
    Last Post: 22nd June 2009, 10:59 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •