آمین
دوستی ایسا ناطہ جو سونے سے بھی مہنگا
اگلا ممبر ہوگا
بازی گر
بے شک اچھے دوست ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں
اگلا ممیبر
Haseeb Alamgir
Yes Sir,
ہماری حاضری لگائی جائے
دل کے تیسرے خانے میں
اگلاممبر ہوگا
کوئی خوبصورت ممبر
کوئی سینئر ممبر۔۔
Aap ka bohat shukriya bhai main out of country tha please.
This is Just a Painting !
فائبر آپٹک کیبل ? تیز ترین مواصلات کا ذریعہ
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
جون 13، 2023
کیا آپ جانتے ہیں کہ فائبر آپٹک کیبلز الیکٹرانک مواصلات کا تیز ترین ذریعہ کیوں ہیں؟ بجلی کی ایجاد کے بعد سے بجلی کی ترسیل کے لیے کاپر یعنی تانبے کی تار استعمال ہوتی رہی ہے- ٹیلیگراف کی ایجاد کو دو سو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں اور اس وقت سے انفارمیشن کی ترسیل کے لیے بھی تابنے کی تار ہی استعمال ہوتی رہی ہے- ٹیلی فون کی ایجاد کے بعد تو دنیا بھر میں تانبے کی تاروں کا جال بچھ گیا تھا- کئی دہائیوں تک ٹیلی کمیونیکیشن کے لیے تانبے کی تار ہی استعمال ہوتی رہی- تانبے کی تاروں میں ڈیجیٹل ڈیٹا الیکٹریکل سگنل کی صورت میں بھیجا جاتا ہے- رسیور کی سائیڈ پر ایک ڈیٹیکٹر اس سگنل کو ڈیٹیکٹ کرتا ہے- لیکن الیکٹریکل سگنل تانبے کی تار میں سفر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگتا ہے- اس مظہر کو signal attenuation کہا جاتا ہے-
فائبر آپٹک کیبل سائنس دانوں نے 1950 کی دہائی میں ایجاد کی- ٹیلی کمیونیکیشن کے فیلڈ میں اس کو مقبول ہونے میں مزید چند دہائیاں لگیں۔ لیکن اب ٹیلی کمیونیکیشن میں تقریباً ہر جگہ فائبر آپٹک کیبل ہی استعمال ہو رہی ہے- فائبر آپٹک کیبل میں شیشے یا پلاسٹک کی تاریں ہوتی ہیں جن میں ڈیجیٹل ڈیٹا روشنی کی پلسز (pulses) کی صورت میں بھیجا جاتا ہے- فائبر آپٹیک کیبل میں ڈیٹا ٹرانسمٹ کرنے کے لیے کمپیوٹر کے الیکٹریکل سگنل کو روشنی کی پلسز میں تبدیل کیا جاتا ہے- اگر روشنی موجود ہو تو اسے 1 تصور کیا جاتا ہے اور اگر روشنی نہ موجود ہو تو اسے 0 تصور کیا جاتا ہے- کیونکہ ڈیجیٹل ڈیٹا 1 اور 0 کی صورت میں ہی ہوتا ہے اس لیے روشنی کی پلسز سے ڈیجیٹل ڈیٹا ٹرانسمٹ کرنا آسان ہوتا ہے- جب یہ روشنی منزل مقصود تک پہنچتی ہے تو ایک کنورٹر روشنی کے اس سگنل کو دوبارہ الیکٹریکل سگنل میں تبدیل کر دیتا ہے، یعنی جب روشنی ہو تو 1 کا سگنل دیتا ہے اور روشنی نہ ہو تو صفر کا سگنل دیتا ہے-
فائبر آپٹیکل کیبل کو تانبے کی تار پر ترجیح کیوں دی جاتی ہے؟
تانبے کی تار میں الیکٹریکل سگنل الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی وجہ سے سفر کرتا ہے- خالی سپیس میں الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ میں تبدیلی روشنی کی رفتار سے سفر کرتی ہے لیکن تانبے کی تار میں اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے قدرے کم ہوتی ہے- فائبر آپٹک کیبل میں روشنی کا سگنل بھی الیکٹرومیگنیٹک سگنل ہے جو خلا کی نسبت آپٹک کیبل میں قدرے سست رفتار ہوتا ہے- گویا اصولاً تابنے کی تار اور فائبر آپٹک کیبل میں سگنل کی ترسیل کی رفتار میں زیادہ فرق نہیں ہوتا- تو پھر فائبر آپٹک کیبل کو کیوں ترجیح دی جاتی ہے؟
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آپٹیکل کیبل کی بینڈ وڈتھ فائبر تانبے کی تار کی بینڈ وڈتھ سے بہت زیادہ ہوتی ہے- بینڈ وڈتھ کو بیک وقت بہت سے سگنلز کو ٹرانسمٹ کرنے کی قابلیت سمجھ لیجیے- جس طرح ایک بس میں ایک وقت میں چالیس پچاس مسافر سفر کر سکتے ہیں جبکہ ایک ٹرین میں بیک وقت ہزار سے بھی زیادہ مسافر سفر کر سکتے ہیں، اسی طرح کسی بلڈنگ کے لوکل ایریا نیٹ ورک میں تانبے کی تار میں بیک وقت تین ہزار ٹیلیفون کال کا ڈیٹا بھیجا جا سکتا ہے- اس کے برعکس اسی عمارت میں فائبر آپٹک کیبل کے نیٹ ورک پر بیک وقت تیس ہزار ٹیلیفون کالز کا ڈیٹا ٹرانسمٹ کیا جا سکتا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ فائبر آپٹک کیبل میں روشنی استعمال ہوتی ہے جس کی فریکونسی تانبے کی تار میں استعمال ہونے والے الیکٹریکل سگنل کی فریکونسی کی رینج سے سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے- کسی بھی چینل کی فریکونسی رینج جس قدر زیادہ ہو اسی قدر زیادہ ڈیٹا بیک وقت ٹرانسمٹ کیا جا سکتا ہے- یہ وہ بنیادی خوبی ہے جس کی وجہ سے آج کل فائبر آپٹک کیبل کو تانبے کی تاروں پر ترجیح دی جاتی ہے
تانبے کی تاروں میں ایک اور مسئلہ بھی ہوتا ہے- ان میں signal attenuation کی وجہ سے ڈیٹا زیادہ دور نہیں جا پاتا اور اگر سگنل دور دراز کے علاقوں میں بھیجنا ہو تو جگہ جگہ سگنل کو دوبارہ ایمپلی فائی کرنا پڑتا ہے جسے سگنل کو بوسٹ کرنا کہا جاتا ہے- اس کے برعکس آپٹیکل کیبل میں روشنی کی پلسز سینکڑوں کلومیٹر تک بھی جائیں تو ان کی کوالٹی میں زیادہ فرق نہیں پڑتا- اس کے علاوہ تانبے کی تار الیکٹرکل noise سے زیادہ متاثر ہوتی ہے جس سے اس کی سگنل ٹرانسفر کرنے کی قابلت کم ہو جاتی ہے- جب کہ فائبر آپٹک کیبل کو الیکٹریکل نوائز سے کوئی فرق نہیں پڑتا- اگر ایک موٹی کیبل میں تانبے کی بہت سی الگ الگ تاریں ہوں جن میں الگ الگ سگنل بھیجے جا رہے ہوں تو ایک تار کے سگنلز سے پیدا ہونے والا الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ دوسری تار میں موجود سگنل کو ڈسٹرب کر سکتا ہے- لیکن بہت سی فائبر آپٹک تاروں کو اکٹھا کر کے ایک موٹی کیبل بنائی جائے تو بھی ایک تار میں بھیجا جانے والا سگنل دوسری تار کے سگنل کو بالکل متاثر نہیں کرتا-
لیکن فائبر آپٹک کیبل تانبے کی تاروں کی نسبت زیادہ مہنگی ہوتی ہے- اس لیے فائبر آپٹک کیبل کو صرف اسی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے جب بہت زیادہ ڈیٹا ٹرانسمٹ کرنا مقصود ہو یعنی بہت زیادہ بینڈوڈتھ درکار ہو- مثال کے طور پر دس گیگابٹ ایتھرنیٹ کی ایک تار سے ایک سیکنڈ میں دس ارب ڈیجیٹل بٹ فی سیکنڈ ٹرانسمٹ کیے جا سکتے ہیں جو ہائی ریزولوشن ہائی فریم ریٹ ویڈیو بھیجنے کے لیے ضروری ہے- ایسے ویڈیو بھیجنے میں فی سیکنڈ اتنا زیادہ ڈیٹا ٹرانسمٹ کرنا ہوتا ہے کہ تانبے کی تار پر اس قدر ڈیٹا بھیجنا ممکن نہیں ہے- اگر ہائی ریزولوشن ویڈیو تانبے کی تار پر بھیجنے کی کوشش کی جائے تو کم بینڈوڈتھ کی وجہ سے ویڈیو کا فریم ریٹ بہت کم ہو جاتا ہے جس سے تصویر رک رک کر تبدیل ہوتی محسوس ہوتی ہے جس سے ہائی ریزولوشن ویڈیو کا تمام لطف ختم ہو جاتا ہے
"Smart Aries"
متعدد اقسام کے کیسنر کی تشخیص کرنے والا خون کا ٹیسٹ
آکسفورڈ: ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایک خون کا ٹیسٹ 50 سے زائد اقسام کے کینسر کی نشان دہی کر سکتا ہے جو بیماری کی تشخیص کے عمل میں تیزی لاسکتا ہے۔
تحقیق میں دیکھا گیا کہ برطانیہ اور ویلز میں جرنل فزیشن کو معائنہ کرانے والے 6 ہزار 238 افراد میں سے 323 افراد میں گیلیری ٹیسٹ سے کینسر کی علامات کی نشان دہی کی گئی۔
محققین کے مطابق ان 323 مریضوں میں سے 244 افراد میں بعد ازاں کینسر کی تشخیص ہوئی، جو کہ اس ٹیسٹ کے درستگی کے حوالے سے ایک مثبت اشارہ ہے۔
تحقیق کے نتائج سے مطلب لیا جاسکتا ہے کہ اس خون کے ٹیسٹ میں صلاحیت ہے کہ لوگوں میں کینسر کی علامات کی نشان دہی کرتے ہوئے تشخیص میں تیزی لا سکتا ہے۔
مثبت کیسز کے 85 فی صد میں ٹیسٹ کینسر لاحق ہونے کی جگہ کی درست نشان دہی کی۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے آزمائے جانے والے اس ٹیسٹ میں خون میں کینسر کی رسولیوں کے ڈی این اے کے ٹکڑے پائے گئے۔کینسر کی کچھ اقسام علامات ظاہر کرنے سے قبل ہی خون میں ڈی این اے شامل کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
اس ٹیسٹ نے 37 فی صد بوول کینسر، 22 فی صد پھیپھڑوں کے کینسر، 8 فی صد یوٹرین کینسر، 6 فی صد کھانے کی نالی کے کینسر اور 4 فی صد اووریئن کینسر کی تشخیص کی۔ البتہ ٹیسٹ کی درستگی کینسر کی اسٹیج پر منحصر تھی۔ٹیسٹ کی مدد سے آخر مراحل کے کینسر کی تشخیص 95 فی صد جبکہ ابتدائی مراحل کی تشخیص 24 فی صد تک درست ہوئی
Bookmarks