گستاخانِ رسول اور ان کا انجام
حافظ ابنِ کثیر اس آیت کے ضمن میں واضح حکم لگاتے ہیں: ” جو آنحضرت اکی شان میں بدگوئی کرے ، کوئی طعن یا عیب لگائے ، وہ قتل کیا جائے گا“۔ (تفسیر ابنِ کثیر، ج۲، ص۳۷)
عصما بنت مروان کا قتل
(۲۵رمضان سن ۲ہجری)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ خطمہ قبیلے کی ایک عورت نے ہجو کی ۔نبی انے فرمایا کہ اس عورت سے کون نبٹے گا۔ عمیر بن عدی نے جا کر اسے قتل کر دیا تو نبی ا نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگان ہے اور اس میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں۔ (الصارم المسلول۔ ۱۲۹)
بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے عصما بنت مروان بنی عمیر بن زید کے خاندان سے تھی ،وہ یزید بن زید بن حصن الخطیمی کی بیوی تھی، یہ رسول ا کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی تھی ۔
اسلام میں عیب نکالتی اور نبی اکے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی ، جن کی آنکھیں اس قدر کمزور تھیں کہ جہاد میں نہیں جا سکتے تھے ۔
ان کو جب اس عورت کی باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا تو کہنے لگے کہ اے اللہ! میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول ا کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول ا اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ ا غزوہ بدر سے تشریف لائے تو عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔
ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیررضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اس عورت کو ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیررضی اللہ عنہ نے بچے کو اس سے الگ کر دیا پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اس زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہوگئی ۔پھر نماز ِ فجر رسول ا کے ساتھ ادا کی۔
جب نبی ا نماز سے فارغ ہوئے تو عمیررضی اللہ عنہ کی طرف دیکھ کر فرمایا: کیا تم نے بنت مروان کو قتل کیا ہے؟ کہنے لگے :جی ہاں! میرے ماں باپ آپ ا پر قربان ہوں ،اے اللہ کے رسول ا۔ عمیررضی اللہ عنہ کو اس بات سے ذرا ڈر سا لگا کہ کہیں میں نے رسول اللہا کی مرضی کے خلاف تو قتل نہیں کیا۔ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول ا! کیا اس معاملے کی وجہ سے مجھ پر کوئی چیز واجب ہے؟ فرمایا کہ دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں ۔
پس یہ کلمہ رسول اللہ ا سے پہلی مرتبہ سنا گیا۔ عمیررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ا نے اپنے اردگرد دیکھا تو فرمایا تم ایسے شخص کو دیکھنا پسند کرتے ہو، جس نے اللہ اور اس کے رسول ا کی غیبی مدد کی ہے، تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا:” لو یہنابیناتو ہم سے بازی لے گیا، اس نے ساری رات عبادت میں گزاری۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﷺنے فرمایا : اسے نابینا نہ کہو،یہ بینا ہے۔ (الصارم المسلول ،ص۱۳۰
Bookmarks