Results 1 to 4 of 4

Thread: Articale Needed Urgent Plz Help

  1. #1
    mega is offline Member
    Last Online
    9th November 2012 @ 08:01 PM
    Join Date
    03 Oct 2012
    Age
    44
    Gender
    Male
    Posts
    72
    Threads
    14
    Thanked: 1

    Default Articale Needed Urgent Plz Help

    Dear members mujhe aik Articale Cahiye jin ka title ho,
    Ustaad Ka Ahteraam ya Ustaad ki Azmat
    or Article k sath poetry bhi ho jaye issi title pe to barri mehebani ho gi Thanks.

  2. #2
    Join Date
    07 Jan 2011
    Location
    Bruxelles
    Gender
    Male
    Posts
    19,938
    Threads
    1080
    Credits
    172,407
    Thanked
    3333

    Default

    [FONT="Jameel Noori Kasheeda"][COLOR="Navy"][SIZE="6"]
    جس نے لکھنا سکھایا خ سے خدا
    بڑھ کے اس ہاتھ ہم قلم چوم لیں

    کیا کرے اپنے ٹیچر کی عظمت بیاں
    جی میں آتا ہے ان کے قدم چوم لیں





    استاد وہ ہے جو انسان کے دل میں ایک چراغ روشن کرتا ہے

    ۔
    جب استاد کے متعلق گفتگو کی جات ہے تو استاد کے عام معنی کو مدنظر رکھا جاتا ہے جو کہ کافی عظمتوں کا حامل ہے۔ معلم وہ ہے جو انسان کے دل میں ایک چراغ روشن کرتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور علم و معرفت کی طرف لاتا ہے۔
    استاد ہونے کا مطلب یہی ہے۔ یہ انسانی زندگی میں تصور کی جانے والی سب سے بڑی قدر و منزلت ہے۔
    اس کی واضح مثال شہید ہونے والے استاد شہید مرتضٰی مطہری ہیں جنہوں نے اپنے علم اور اپنی عمیق فکر کے ذریعہ اسلامی علوم کے مختلف گوشوں کو واضح و روشن کیا اور باریک بینی کے ساتھ ان کا تجزیہ کیا اور انہیں متعدد کتابوں کی صورت میں ہمارے حوالے کیا۔غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان مختلف موضوعات میں جس موضوع پر بھی شہید مرتضٰی مطہری نے عالمانہ اور عمیق تحقیق کی ہے وہ ایک چراغ کی مانند ہے جس نے ہمارے قلوب اور اذھان کو روشنی بخشی ہے۔اب ذرا سوچئے کہ اس قدر و منزلت کا مقابلہ کون سی شیء کر سکتی ہے؟ یہ معلم کا ایک معنی تھا جو بیان ہوا۔
    جیسا کہ امام خمینی(رہ)بھی فرماتے تھے اور متعدد دفعہ ہم نے بھی کہا اور سنا ہے کہ تعلیم انبیا کا عمل ہے''یعلمھم الکتاب والحکمۃ‘‘ بلکہ خود خداوند عالم کا عمل ہے''علم الانسان ما لم یعلم‘‘اور اگر ان مراتب سے کمتر کی گفتگو کی جائے تو خود انسان آپس میں ایک دوسرے کو تعلیم دیتا ہے۔ان میں کوئی معلم ہے تو کوئی طالب علم۔آپ کا اور اس شعبے سے متعلق ہر شخص کا کام ہی یہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کو سکھائے اور تعلیم دے خواہ وہ آموزش و پرورش(ایران کا ادارہ تعلیم و تربیت) میں ہو یا یونیورسٹی میں،حوزہ علمیہ سے تعلق رکھتا ہو یا پھر کسی بھی علمی مرکز سے۔ لوگوں کے لئے اہم حقیقتوں کو آشکار کرے اور ان کے علم و معرفت میں اضافہ کرے۔ ہر معلم کی یہی شان ہونی چاہیئے اس لئے کہ یہ بہت ہی اہم اور معتبر ہے۔
    آج کی ملاقات میں دوسرے نقطہ نگاہ کے سلسلے سے میں آپ کے سامنے اپنے عرایض پیش کرنا چاہتا ہوں۔ وہ معلم اور استاد کا ایک خاص معنی یعنی''استاد تعلیم و تربیت‘‘ ہے۔ یہ معلم دیگر معلموں سے مختلف ہے۔تمام معلمین میرے لئے عزیز ہیں لیکن تعلیم و تربیت کا استاد و معلم ایک خاص امتیاز کا حامل ہے اور دیگر اساتذہ خواہ وہ گھر میں والدین کی صورت میں ہوں یا پھر علمی مراحل میں انسان کی ترقی کا باعث بننے والے دیگر دانشور حضرات کی شکل میں ہوں، اس کے ہم پلہ نہیں ہو سکتے۔تعلیم و تربیت کے استاد کی ایک خاص اہمیت ہے۔
    اس خاص اہمیت کی کیا وجہ ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ''ادارہ تعلیم و تربیت‘‘ پرائمری اسکول سے ہائی اسکول تک ایک عام تعلیمی مرکز ہے جس میں معاشرے کے تمام افراد ایک نقطہ سے داخل ہوتے ہیں اور دوسرے نقطہ سے خارج ہوتے ہیں۔ وہ بھی کس سن و سال میں؟ کیا ستر،اسی یا سو سال کی عمر میں؟ کوئی بھی دور تعلیم حاصل کرنے کے اعتبار سے اتنا اہم نہیں ہے جتنا کہ علم حاصل کرنے کا زرین دور یعنی۶سال کی عمر سے اٹھارہ سال کی عمر تک کا دور ہے۔ ادارہ تعلیم و تربیت کو اور معلمین کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھئے۔ایک قوم کے افراد کا عظیم سلسلہ، جس کے تحت کروڑوں افراد اپنی زندگی کے بہترین دور میں اس عظیم مرکز میں داخل ہوتے ہیں جس کا نام ادارہ تعلیم و تربیت ہے۔ اس عظیم تعداد کا سروکار کس سے ہے؟ معلم اور استاد سے ہے۔ لہذا اس عظیم تعلیمی مرکزاور بارہ برسوں کے عرصے میں معلم اپنا خاص کردار ادا کرتا ہے۔
    اب آپ ایک ملک پر نظر ڈالیں۔
    آپ ایک انسان ،ایک مدیر، ایک صدر،اورایک فرض شناس شخص ہونے کے ناطے چاہتے ہیں کہ آپ کا ملک ایسا ہو جس کے باشندے نمایاں صلاحیتوں کے حامل ہوں، اخلاقی لحاظ سے پاک و منزہ ہوں، میدان عمل میں شجاع ہوں، فکری لحاظ سے تدبر رکھتے ہوں، اس ملک کے افراد صاحب فکر، اورتخلیقی حیثیت کے حامل متقی پرہیزگار، پاکدامن منظم، قانون کا لحاظ رکھنے والے اور مختلف بلندیوں کو سر کرنے والے ہوں، آپ کچھ اس طرح کا ملک اور کچھ ایسا معاشرہ تعمیر کر نا چاہتے ہے۔
    اس دنیا میں کون ایسا ہے جو نہ چاہتا ہوں کہ اس کا ملک اور معاشرہ ایسے مردوں اور عورتوں پر مشتمل ہو جو ایسی خصوصیات کے حامل ہوں؟ یعنی ایسی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ میدان عمل میں شجاع ہوں، بلند مقاصد تک رسائی حاصل کریں، اپنے مقصد سے دستبردار نہ ہوں، شوق و اشتیاق کے حامل ہوں، نظم و ضبط کا خیال رکھیں اور ان میں بے کاری، بے نظمی اور تن پروری کا وجود نہ ہو۔
    ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح کا ملک تعمیر کریں۔ اب آپ ملاحظہ کریں کہ انسان کی تربیت کی منزل گویا کہاں ہے؟ کیا ولادت سے وفات تک کی مدت میں، ایسی خصوصیات کے حامل شخص کی تربیت کرنے کے لئے ادارہ تعلیم و تربیت سے بہتر کوئی مقام نظر آتا ہے؟ یہی ۱۲سال کی مدت ایسے انسان کی تربیت کر سکتی ہے جو ان خصوصیات کا حامل ہو۔ یعنی اگر تعلیم و تربیت کا یہ کارخانہ صحیح کام کرے، صحیح سمت میں حرکت کرے، اس کے تمام اجزا اپنے فرائض ادا کریں، اسکے منتظمین، زعما اور تمام ارکان اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھائیں تو بلاشک و شبہ ۲۰ سے ۲۵ سال کی مدت میں ایسا ملک وجود میں آسکتا ہے۔
    یہ ہے ادارہ تعلیم و تربیت کا کردار، یہ ہے اس ادارے کے معلمین کا کردار۔ اسے کوئی معمولی امر نہیں سمجھنا چاہیے۔ اس ادارہ کے علاوہ ملک کا کون سا ادارہ ہے جس کو یہ افتخار حاصل ہو کہ انسانوں کی ایک عظیم تعداد اپنے بہترین دورہ زندگی میں مسلسل ۱۲ سال تک اپنے آپ کو اسکے حوالے کرے؟ یہ ہے ادارہ تعلیم و تربیت کی اہمیت۔ ہم جو معلم کے لئے ایک خاص احترام کے قائل ہیں اور میں جو معلم کے حقیقی معنی کو مدنظر رکھتے ہوئے اسکی تعظیم کرتا ہوں، یہ کوئی ظاہر داری نہیں فلاں صاحب یا فلاں صاحب کی خوشامد نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے اور اس فلسفہ پر مبنی ہے جس کا ذکر میں اوپر کرچکا۔ معلم چاہے یا نہ چاہے ایک بلند اور عالی مرتبہ پر فائز ہے اور حسّاس نقطہ پر کھڑا ہوا ہے۔
    ادارہ تعلیم و تربیت کی اہمیت بیان ہو چکی جس میں اس کے تمام ارکان، منتظمین، مفکرین اور اہل قلم افراد شامل ہیں۔ لیکن سب سے اہم حیثیت معلم اور استاد کی ہے۔ تمام انتظامات اس لئے کئے جاتے ہیں کہ معلم اپنے کام کو بہتر طور پر انجام دے سکے۔
    مرد میدان معلم ہے، پہلا مرتبہ معلم کا ہے اور باقی دیگر ارکان اس کے پشت پناہ اور مدد گار ہیں تاکہ بچوں اور نو جوانوں کی شکل میں جو ان کے لئے بہترین قدرتی عناصر مہیا کئے گئے ہیں انہیں وہ اپنے ھنر، سعی و کوشش، ہدایت اور لگن کے ساتھ ایک مفید اور بااہمیت عنصر میں تبدیل کر ے۔ ان عناصر کی قدر و اہمیت میں یہ اضافہ کرے تو یہ ترقی کسی بھی دوسری چیز کی ترقی سے بہتر ہے۔ یہاں تک کہ اگر خاک سے خالص سونا بنادیں۔ اگر ہم معدن سے نکال کر ایٹمی انرجی بھی بنائیں پھر بھی یہ کام اس کام کی اہمیت تک نہیں پہنچ سکتا جو ایک استاد اور معلم اپنے شاگرد کے نشو نما کے لئے انجام دیتا ہے۔
    آپ تمام معلم حضرات ایک انسان کی تربیت کرتے ہیں اور ایک حقیقی انسان کے وجود میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ اب اگر کسی ملک کے معلم اس بات پر اتر آئیں کہ اس کے برخلاف عمل کریں یعنی شجاع کی جگہ بزدل بنائیں، وطن پرست اور ملک دوست انسان کے بجائے ایک ایسے انسان کو پروان چڑھائیں جو بیگانوں اور اجنبیوں کا دلدادہ ہو، مؤمن نیک اور صالح افراد کی جگہ بے ایمان اور لا مذہب اشخاص کو وجود بخشیں، با صلاحیت اور قابل اعتماد افراد کے بجائے ایسے انسانوں کی تربیت کریں جو دوسروں کی علمی و غیر علمی قدرت توانائی کے سامنے سر بسجود ہوں تو ذرا سوچیں کہ کیا کیا مصیبتیں ملک پر نہ ٹوٹ پڑیں گی؟ شاہ رضاخان کے زمانے میں موجود ادارہ تعلیم و تربیت انہی صفات کا حامل تھا۔ البتہ یہ عین ممکن ہے کہ اسکے منتظمین اور زعما خود اس بات سے غافل ہوں کہ وہ کیا قیامت برپا کر رہے ہیں۔
    یہ بات بھی اپنی جگہ مسلہ حقیقت ہے کہ اس مجموعے میں بہت سے متدین، مؤمن اور نیک افراد موجود تھے جو اپنے مثبت مقاصد کے پیش نظر کام کرتے تھے لیکن اتنا طے ہے کہ خود حکومت کا ہدف کچھ اور تھا۔ اسلامی نظام میں مقاصد اس کے برخلاف ہیں اور وہ یہ ہے کہ اس عظیم مرکز میں انہی خصوصیات کے حامل افراد کی تربیت ہو جنہیں بیان کیا جائیگا۔ ایک جوان کے بلوغ کے سن و سال آپ کے حوالے ہیں۔ کسی انسان کا زمانہ بلوغ اسکی طولانی اور باقی رہنے والی شخصیت کی تشکیل کا دور ہوتا ہے۔ اس مدت میں وہ ایک نوجوان معلم کے سپرد ہوتا ہے۔ ایک معلم نہ صرف یہ کہ اپنے درس کے ذریعہ بلکہ اپنی شخصیت کے ذریعے بھی اس شاگرد پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایک عاقل، عالم، خوددار، بااثر، پر امید اور فعال معلم اپنے شاگردوں کو بھی خود جیسا ہی بناتا ہے۔ لیکن ایک تندخو اور کم حوصلہ معلم ویسے ہی شاگردوں کی تربیت کر پاتا ہے جیسا خود ہے ۔ چاہے وہ کسی بھی موضوع کی تدریس کرتا ہو۔ لہذا ادارہ تعلیم و تربیت اور معلم پر توجہ دینا اور ان کی اہمیت کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔
    معلم اور استاد کے سلسلے سے ہم نے جو کچھ بھی عرض کیا اسکے مخاطب ہمارے ملک کے تمام لوگ ہیں۔ طالب علموں کو بھی معلم کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے اور اسی طرح ان کے والدین اور ملک کے سیاسی عہدیداران کو بھی ان کی عظمت و فضیلت کو سمجھنا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں سبھی کو معلم کی قدر جاننی چاہیے لیکن ان سب سے زیادہ خود معلمین کو اپنی قدر ومنزلت کا احساس ہونا چاہیے۔
    معلم کو سمجھنا چاہیے کہ وہ کس حساس مرحلے پر مصروف خدمت ہے۔ آپ تمام معلم حضرات کوئی ایسی صنف نہیں جو دیگر اصناف کے ہم پلہ ہوں۔ اسے ایک ایسے مشغلہ کی صورت میں نہ دیکھیں جس کے ذریعہ انسان کی روزی روٹی فراہم ہوتی ہے۔یہ صحیح ہے کہ یہ مشغلہ روزی کا سبب بھی ہے لیکن معلم کی نظر میں یہ عہدہ اس عظیم ذمہ داری کی شکل میں ہونا چاہئے جسے اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔
    اگر ہم معلم کی اہمیت پر کوئی معقول اور بجا مثال دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ریلوے لائن میں جھنڈی دکھانے والے شخص کا کردار ممکن ہے کہ ظاہری طور پر کم اہمیت نظر آئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہزاروں افراد کی زندگی و موت اسی جھنڈی دکھانے والے کی ہوشیاری اور مستعدی پر منحصر ہے یعنی اگر وہ غفلت سے کام لے تو گویا صرف اس نے اپنے مشغلے میں غفلت نہیں کی ہے بلکہ وہ ہزاروں افراد کی جان کی نسبت غفلت کر بیٹھا ہے۔ معلم کا کردار بھی کچھ ایسا ہی ہے اور خود ایک معلم اور استاد کو اس بات کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔

    ایک طرف لمبی لمبی امیدیں
    دوسری طرف کل نفس ذائقۃ الموت

  3. #3
    Join Date
    07 Jan 2011
    Location
    Bruxelles
    Gender
    Male
    Posts
    19,938
    Threads
    1080
    Credits
    172,407
    Thanked
    3333

    Default


    البتہ معلموں اور استادوں کے طبقے کے بارے میں جو مجھے اطلاع ہے وہ کافی خوشایند ہے۔ ہمارے ملک کے استادوں کا طبقہ ایک پاکیزہ، پاکدامن، فرض شناس، کوشا، صابر اور اپنے مشغلے سے محبت کرنے والا طبقہ ہے۔
    اس کی واضح دلیل یہی ہے کہ ہم نے ملک کے تمام حساس مراحل منجملہ مقدس دفاع کے دوران یہ مشاہدہ کیا ہے کہ استادوں نے طالب علموں کی ہدایت میں بہترین کردار ادا کیا۔ اس تمام مدت میں اور ۲۵ سال کے عرصہ میں یعنی ٹھیک اسوقت سے جب میں صدر مملکت بنایا گیا تھا اور انقلاب کی ثقافتی کمیٹی میں مشغول خدمت تھا میں نے ان تمام حوادث و واقعات کا نزدیک سے جائزہ لیا ہے۔ دشمن کی سازشوں کا ایک نشانہ معلموں اور استادوں کا یہی طبقہ تھا۔ میں نے اس سال کے آغاز میں یہ عرض کیا تھا کہ دشمن ہماری قوم کو علمی و اقتصادی پسماندگی کا شکار بنانا چاہتا ہے اور اس قوم کے اتحاد کو توڑنا چاہتا ہے۔
    ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں، مختلف عناصر کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ جاسوسی کے اداروں کے آزمودہ اور تجربہ کار افراد سے کام لیا جا رہا ہے تاکہ کسی طرح مذکورہ تینوں مقاصد تک رسائی حاصل ہو سکے یعنی دشمن چاہتا ہے کہ ہم اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہو جائیں، علمی میدان میں بھی اپنی ترقیاتی کاوشوں سے دستبردار ہو جائیں اور اتحاد بھی افتراق و اختلاف میں تبدیل ہو جائے اور ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو جائیں۔ دشمن ان تینوں مقاصد تک پہونچنا چاہتا ہے۔
    ان تینوں مقاصد میں سے دو حصوں میں دشمن کا ایک اہم نشانہ استادوں کا طبقہ ہے یعنی علمی ترقی کے مرحلہ میں نیز اتحاد کے مرحلہ میں۔ بیس پچیس سال پہلے سے ہی یہ سازشیں ہو رہی ہیں اور میں نے خود اس بات کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان سازشوں کے مد مقابل استادوں کا طبقہ کوہ محکم بنا ہوا ہے۔ میں نے اسی لئے عرض کیا کہ معلم حضرات پاکیزہ ہیں۔
    دشمن نے لاکھ کوششیں کیں کہ انہی استادوں کے ذریعے عوام میں اختلاف و تفرقے کو ھوا دی جائے لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ نہ وہ کبھی کامیاب ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اس لئے کہ استادوں اور معلموں کا طبقہ آج بھی سینہ سپر ہے۔
    میرے عزیز بھائیو اور بہنو! ملک ترقی کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور تمام علمی، سیاسی، فوجی اور اقتصادی میدانوں میں تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ اسلامی نظام یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ ایک محکم، موثر اور اندرونی قدرت و توانائی میں اضافہ کرنے والا نظام ہے۔ ایسا نظام نہیں ہے جو بعض کمزور و ناتواں ممالک اور بے اثر سیاستدانوں کی قسمت بن چکا ہے اور جو دوسری طاقتوں کی حمایت کا نتیجہ ہے۔ نہیں ہرگز نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام اور اقتدار اندر سے مضبوط و محکم ہیں اور اس کی بنیادوں میں استحکام پایا جاتا ہے۔ ہم ترقی کی شاھراہ پر گامزن ہیں اور ہماری رفتار بھی سست نہیں ہے۔

    دنیا کی ظالم طاقتیں اس استقامت کو پسند نہیں کرتیں۔ ان میں دو چار ممالک کے حکمراں شامل نہیں ہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے ظالم تو وہ ہیں جو عالمی سامراج کے نظام کو چلا رہے ہیں ویسے ان ممالک میں صرف ظاہری آزادی ہے، حقیقت میں آزادی نہیں ہے لیکن بین الاقوامی سطح پر ان کا رویہ کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہے۔ وہ ہرگز اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی قوم کسی ایسے نظام کو وجود میں لائے جو ان کی سیاست اور ان کےخواہشوں کے بر خلاف ہو۔ وہ اس بات کا بخوبی مشاہدہ کر رہے ہیں کہ دنیا کے دیگر مسلمان بھی ایران میں موجود طاقتور اسلامی نظام سے متاثر ہیں۔
    آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں ایران کے صدر مملکت یا ملک کے دیگر اعلٰی عہدیدار اگر کسی مسلمان ملک میں داخل ہوتے ہیں اور ان کو وہاں کے لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے تو ان کے لئے لوگوں میں کس قدر جوش و خروش پایا جاتا ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟ کیوں دیگر مسلمان مملک کے لوگ ان کی نسبت ٹھیک اسی طرح والہانہ عشق کا اظہار کرتے ہیں جس طرح خود اپنے ملک کے عہدیداروں کے لئے جذبات رکھتے ہیں۔
    اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ایران کی ملت نے دنیائے اسلام پر اپنی عظیم تحریک کا اثر چھوڑا ہے۔

    شجاعت، استقامت، فداکاری اور قول و عمل میں صداقت یہ ایسے عناصر ہیں جو بے نظیر اثر رکھتے ہیں۔ ممکن ہے کہ بہت سے ممالک کے سیاسی رہنما یہ چاہتے ہوں کہ اسلامی جمہوریہ کے تن پر سر نہ رہے لیکن وہاں کی قومیں سو فیصدی ان کے برخلاف اسلامی جمہوریہ سے وابستگی رکھتی ہیں۔ایسے ممالک ہمارے ہی علاقہ میں موجود ہیں۔عالمی استکبار بھی اس بات سے بخوبی واقف ہے۔
    ہم کچھ اس طرح سے ترقی کے مراحل طے کر رہے ہیں لیکن اگر ہماری یہ تحریک عقل، شجاعت، توکل اور احساس ذمہ داری پر استوار نہ ہو تو یقیناً نقصان دہ ثابت ہوگی۔ خواہ وہ تعلیم و تربیت کا ادارہ ہو یا پھر کوئی اور منزل

    ek bar is ki prof reading kar leyn khud say
    shukreya

  4. #4
    mega is offline Member
    Last Online
    9th November 2012 @ 08:01 PM
    Join Date
    03 Oct 2012
    Age
    44
    Gender
    Male
    Posts
    72
    Threads
    14
    Credits
    0
    Thanked: 1

    Default

    thanks bhai but is main just 3 line teacher k baray main nikli. baki iran ki politics or . atomic power k baray main kabhi kisi to kabhi kisi k baray main tha,

Similar Threads

  1. Solved Urgent Needed this tip
    By Zolfiqar in forum Solved Problems (IT)
    Replies: 8
    Last Post: 22nd December 2012, 11:45 AM
  2. Help needed urgent..... Plz must read
    By sAjjjAn m3m0n in forum Ask an Expert
    Replies: 5
    Last Post: 14th January 2012, 03:36 PM
  3. help needed but urgent plz its v.v.v.v.v urgent
    By people party in forum Ask an Expert
    Replies: 1
    Last Post: 9th February 2010, 07:22 PM
  4. internet download manager needed urgent
    By Gulshan e attar in forum Ask an Expert
    Replies: 2
    Last Post: 25th April 2009, 02:02 AM
  5. urgent help needed
    By dark prince in forum Ask an Expert
    Replies: 4
    Last Post: 8th December 2008, 01:32 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •