شاہنواز فاروقی
مغربی دنیا نے آزادیٔ اظہار کو ایک بنکر بنالیا ہے۔ اہل مغرب اسلام اور رسول اکرمؐ کی توہین کرتے ہیں اور آزادیٔ اظہار کے بنکر میں جاچھپتے ہیں۔ ا مریکا میں اسلام اور رسول اکرمؐ کی توہین کے لیے فلم بنائی گئی اور صدر امریکا بارک حسین اوباما خاموش رہے۔ مسلم دنیا کے ایک ملک میں ایک چرچ جلادیا گیا تو انہوں نے فلم کی مذمت کی اور فرمایا کہ جو لوگ فلم کے خلاف احتجاج کررہے ہیں انہیں چرچ کو نذر آتش کیے جانے کی بھی مذمت کرنا چاہیے۔ گویا صدر امریکا کے نزدیک اسلام اور پیغمبر اسلام کی ’’شعوری توہین‘‘ اور اس کے ردعمل میں ایک چرچ کا جلایا جانا اخلاقی اعتبار سے مساوی حقیقت ہیں۔ اسلام مذہبی عبادتگاہوں کے تحفظ کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ جنگ کے دوران بھی مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچائیں۔ لیکن مسلمان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاور کہلانے والے ملک کا سربراہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی تکریم سے زیادہ ایک چرچ کی حفاظت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فلم کو ’’افسوسناک‘‘ قرار دیا لیکن فرمایا کہ ہم اپنے شہریوں کو ان کے خیالات کے اظہار سے نہیں روک سکتے خواہ ان کے خیالات کتنے ہی کڑوے کسیلے کیوں نہ ہوں۔ گوگلز نے اس سلسلے میں اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ (توہین آمیز) فلم کی ویڈیو ہمارے رہنما اصولوں کے دائرے میں ہے چنانچہ ہم اسے یوٹیوب سے نہیں ہٹاسکتے۔
مغرب کے اس طرز فکر و عمل کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ مغرب میں آزادیٔ اظہار نہ صرف یہ کہ مطلق ہے بلکہ مغرب میں ا س سے زیادہ مقدس شے کوئی نہیں۔ لیکن میرعدنان عزیز نے دی نیوز کراچی کی 25 ستمبر 2012 ء کی اشاعت میں ایک دلچسپ کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں میر عدنان عزیز نے بتایا ہے کہ آزادیٔ اظہار کا پرچم بلند کرنے والی گوگلز نے یوٹیوب سے ایک دو نہیں 1710 ایسی ویڈیوز کو ہٹایا ہے جن سے اکثر میں یا تو Holucast کا انکار کیا گیا تھا یا Holucast کا انکار کرنے والوں کا دفاع کیا گیا تھا۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا بڑے پیمانے پر قتل ہر اعتبار سے ’’تاریخی‘‘ اور ’’تحقیقی‘‘ موضوع ہے اور اس میں فی نفسہ کوئی ’’تقدیس‘‘ نہیں ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک سے زیادہ آراء موجود ہوسکتی ہیں لیکن گوگلز نے ایک تاریخی تحقیقی اور عالمی موضوع کو ’’مقدس‘‘ بنادیا ہے اور یوٹیوب سے ایک دو نہیں 1710 ویڈیوز ہٹادیں۔ سوال یہ ہے کہ اس دوہرے معیار کا کیا جواز ہے؟ میر عدنان عزیز نے مغرب کے دوہرے معیار کی کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ میں 26 سالہ طارق مہبانا کو ایک مقدمے میں ساڑھے سترہ سال کی سزا سنائی گئی اس نوجوان امریکی مسلم پر الزام تھا کہ وہ انٹرنیٹ پر القاعدہ کے پیغام کو عام کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ آزادیٔ اظہار سے قطع نظر یہ الزم جھوٹا تھا۔ پاکستانی نژاد 25 سالہ جاوید اقبال کو 9ماہ کی سزا سنائی گئی جاوید اقبال کا ’’گناہ‘‘ یہ تھا کہ ا س نے حزب اللہ کے ٹیلی وژن چینل المنار کی نشریات کو امریکا میں دکھانے کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کی تھیں۔ انٹرنیٹ پر پوسٹ کیے جانے والے ایک کارٹون میں ہالینڈ کے دائیں بازو کے سیاست دان گیرٹ ولڈر کو ایک نازی گارڈ سے تشبیہ دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں دھمکیاں موصول ہوتے ہی کارٹون کو ویب سائٹ سے ہٹالیا گیا۔ اس کے برعکس جب گیرٹ ولڈر نے خود قرآن کی توہین کی اور اسے ہٹلر کی خودنوشت کی طرح کی کتاب قرار دیا تو اس کی اس توہین کو ’’آزادی اظہار‘‘ قرار دے کر ویب سائٹ سے ہٹانے سے انکار کردیا گیا۔ جرمنی میں معروف مورخ ارنسیٹ اینڈلی کو Holucast کے بارے میں ’’اظہار رائے‘‘ پر سات سال کی سزا ہوئی۔ فرانس کے ممتاز فیشن ڈیزائنر جان گیلیانو نے یہودیوں پر تبصرہ کیا تو فرانس کے صدر فرانسواں ہالینڈ نے اس سے فرانس کا اعلیٰ ترین سول اعزاز واپس لے لیا۔
ان حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغرب میں آزادیٔ اظہار نہ مطلق ہے نہ مقدس ہے۔ البتہ اسلام اور نبی اکرمؐ کا معاملہ آتے ہی مغرب میں آزادیٔ اظہار مطلق بھی ہوجاتی ہے اور مقدس بھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ صورتحال 14 ویں صدی میں رونما نہیں ہورہی جب ایک براعظم کی خبر دوسرے براعظم تک صدیوں میں پہنچتی تھی۔ یہ صورتحال 21 ویں صدی میں رونما ہورہی ہے جب ایک خبر لمحے بھر بعد پوری دنیا کی سماعت تک پہنچ جاتی ہے اور کوئی راز‘ راز نہیں رہتا اور کسی بات پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن مغربی دنیا کو اس بات کی رتی برابر بھی پروا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
اس کی بنیادی وجہ مغرب کا جھوٹا احساس برتری ہے۔ مغرب کو اپنے رنگ‘ اپنی نسل اور اپنی تہذیب کی برتری کا زعم ہے۔ یہ زعم اتنا بڑھا ہوا ہے کہ مغربی دنیا کے رہنما جھوٹ بھی بولیں تو ان کے جھوٹ کو اسلامی دنیا کے سچ پر فوقیت دی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے جھوٹ کو انسانیت کی خدمت باور کرایا جاتا ہے۔ امریکا کے صدر جارج بش نے عراق پر الزام لگایا کہ اس کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ مغربی دنیا نے اس دعوے کو کسی تحقیق کے بغیر درست مان لیا۔ حالانکہ چند ہی ماہ بعد ثابت ہوگیا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود جارج بش کا جھوٹ اس طرح چیلنج نہ ہوسکا جس طرح اسے چیلنج ہونا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں مغربی دنیا کے رہنمائوں کا جھوٹ یہاں تک پہنچا کہ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے عراق کے خلاف جارحیت کے حوالے سے کہا کہ عراق سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تو برآمد نہ ہوسکے لیکن تاریخ بالآخر ثابت کرے گی کہ ہم نے عراق پر حملہ کرکے ٹھیک کیا۔ ٹونی بلیئر کے اس بیان کو درست مان لیا جائے تو دنیا کے ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ حقائق کے بجائے تاریخ کی بنیاد پر جب چاہے دوسرے ملک کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو مغرب کے اس طرز عمل کی وجہ مغرب کی مادی طاقت یا Phisical Power ہے۔ مغرب نے اس طاقت کو ہی حق بنالیا ہے اور اس طاقت کو وہ دلیل سمجھتا ہے۔ اس کے بغیر مغرب اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے وہ سب کچھ نہیں کرسکتا تھا جو وہ کررہا ہے۔
Bookmarks