1978ءکے دنوں کی بات ہے کہ ہم ابوظہبی امارات میں تھے اور میں ملٹری ہسپتال میں کام کرتا تھا اور ابوظہبی میں ہمارے گھر پر ہی جمعرات اور جمعہ کو محفل ذکر ہوا کرتی تھی اور اس محفل میں امارات کے بے شمار لوگ ذکر الٰہی کرنے کیلئے آیا کرتے تھے۔ انہی دنوں ایک شخص غلام رسول گوجرانوالہ کی طرف کا تھا۔ وہ نیول فورس میں بھرتی ہو کر ابوظہبی آیا۔ کچھ دوستوں کے ذریعے اسے معلوم ہوا کہ ابوظہبی میں مسجد افغان کے متصل محفل ذکر ہوتی ہے تو وہ بھی دوستوں کے ساتھ اس محفل میںذکر الٰہی کیلئے آنا شروع ہو گیا۔ ایک دن ذکر الٰہی کے بعد ڈاڑھی پر بات چل نکلی تو اس نے اپنا ایک واقعہ سنایاجو بڑی عبرت رکھتا ہے۔ غلام رسول صاحب نے اپنا واقعہ اس طرح سے سنایا کہ میں نیول فورس کراچی میں تھا اور میری منگنی ماموں کی بیٹی کے ساتھ ہو چکی تھی اور میرے ماموں فوج میں کرنل تھے۔ اسی دوران کراچی میں ایک بزرگ نے مجھے ذکرالٰہی کی دعوت دی۔ میں بھی ان کے ساتھ ذکر کی محفل میں شامل ہونا شروع ہو گیا اور مجھ میں باطنی اور ظاہری بہت سی تبدیلی آنی شروع ہو گئی اور اس تبدیلی کا ظاہری اثر یہ ہوا کہ میں نے ڈاڑھی رکھ لی۔ اس کے بعد جب شادی کرانے کیلئے میں چھٹی پر گھر گیا تو گھر والے سب ناراض ہوئے کہ ڈاڑھی کیوں رکھی ہے؟ ابھی تم جوان ہو اور تمہاری شادی کرنی ہے لہٰذا ڈاڑھی کو کٹا دو تو میں نے کہا کہ میں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکھی ہے اب یہ نہیں کٹا سکتا۔ والدہ صاحب نے کہا کہ تمہارا ماموں اپنی بچی کی شادی نہیں کرے گا جب تک ڈاڑھی نہیں کٹائو گے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رکھی ہے اس لیے یہ نہیں کٹ سکتی، چاہے شادی ہو یانہ ہو۔ ادھر ماموں کو معلوم ہوا تو ماموں نے بھی ڈاڑھی کٹانے کی قید لگا دی کہ جب تک ڈاڑھی نہیں کٹائو گے میں اپنی بچی کی شادی تمہارے ساتھ نہیں کروں گا۔ آخر میں شادی کرائے بغیر چھٹی گزار کر واپس ڈیوٹی پر کراچی آگیا۔ شادی لیٹ سے لیٹ ہوتی گئی۔ آخر لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ میری شادی کرا دیں۔ ڈاڑھی میں خود کٹوا دوں گی، یہ چیز آپ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ گھر والوں نے شادی کے دن مقر ر کرکے مجھے اطلاع کر دی۔ میں چھٹی لے کر گھر چلا گیا اور مقررہ تاریخ پر میری شادی ہو گئی۔ شادی کے چند دنوں کے بعد ایک رات میں سویا ہوا تھا۔ کہ میری بیوی نے میری والدہ سے کہا کہ غلام رسول کی سوتے میں ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دیتے ہیں۔ پھر خود ہی ساری صاف کر دے گا۔ آپ والدہ ہیں آپ کو کچھ نہیں کہے گا اور اگر میں کاٹوں کی تو مجھ سے ناراض ہو گا۔ والدہ اس کی باتوں میں آگئی اور اس طرح میری والدہ کو باتوں میں پھسلا کر میری ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دی گئی۔ جب میں سو کر اٹھا اور آئینہ کے سامنے گیا تو دیکھا کہ میری ڈاڑھی ایک طرف سے کٹی ہوئی ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت دلی رنج اور صدمہ ہوا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ والدہ صاحبہ نے ایسا کیا ہے۔ والدہ کا سن کر میں خاموش ہو گیا کہ رب العزت کا حکم ہے کہ والدین کو اُف بھی نہ کہو اور اب والدہ کو کیا کہوں؟ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا۔ اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ اور باقی ڈاڑھی کو برابر کر لیا اور چھٹی کے بقایا دن خاموشی سے گزار کر واپس کراچی آگیا۔ اور ڈاڑھی آہستہ آہستہ پھر بڑی ہو گئی۔ کراچی سے میں گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرنے کیلئے خط لکھتا رہا مگر گھر سے نہ ہی بیوی کی طرف سے اور نہ والدہ کی طرف سے کوئی جواب آتا۔ آخر 6ماہ کے انتظار کے بعد میں چھٹی لے کر گھر گیا تو دیکھا کہ بیوی یرقان سے بیمار ہو کر بالکل سوکھ چکی ہے۔ اور والدہ بھی بیمار اور ایک ہاتھ کو کوڑھ ہو چکا ہے اور گوشت اتر کر ہاتھ کی ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بیوی اور والدہ دونوں رونا شروع ہو گئیں اور بیوی قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگیں اور والدہ میرے گلے لگ کررونے اور معافی مانگنے لگیں۔ میں نے کہا آخر بات کیا ہے مجھے کچھ بتائو تو سہی کہنے لگیں کہ پہلے آپ ہمیں معاف کر یں، پھر بتائیں گے۔ میں نے کہا کس بات کی معافی، آخر ہوا کیا ہے؟ کہنے لگیں پہلے معاف کریں۔ میں نے کہا کہ معاف کیا۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا میں نے اسی ہاتھ سے آپ کی ڈاڑھی کاٹی تھی۔ جس دن ڈاڑھی کاٹی تھی، اسی دن سے اس ہاتھ میں تکلیف شروع ہو گئی تھی اور اب یہ حالت ہے، بیوی نے کہا میں نے ڈاڑھی کٹوائی تھی۔ اس کی مجھے یہ سزا ملی ہے کہ میں یرقان کی مریضہ ہو کر مرنے کے قریب پہنچ چکی ہوں۔ آپ ہمیں اللہ کیلئے معاف کر دیں۔ غلام رسول صاحب کہتے ہیں کہ میں نے والدہ صاحبہ اور بیوی دونوں کو کہا کہ اصل میں آپ میرے مجرم نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرم ہیں۔ آپ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی۔ اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے دل سے معافی مانگیں،میں نے تو معاف کر ہی دیا ہے۔ غلام رسول صاحب نے بتایا کہ والدہ اور بیوی دونوں نے اللہ سے رو رو کر سچے دل سے معافی مانگی۔ تو اس کے بعد بغیر دوائی و علاج کے والدہ صاحب اور میری بیوی دونوں ہی خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ صحت مند ہو گئیں۔
Bookmarks