سامنے اس کے کبھی اس کی ستائش نہیں کی
دل نے چاہا بھی اگر، ہونٹوں نے جنبش نہیں کی
اہل محفل پہ کب احوال کھلا ھے اپنا
ہم بھی خاموش رہے اس نے بھی پرسش نہیں کی
یہ بھی کیا کم ھے کہ دونوں کا بھرم قائم ھے
اس نے بخسش نہیں کی، ہم نے گزارش نہیں کی
ایک تو ہم کو ادب آداب نے پیاسا رکھا
اس پہ محفل میں صراحی نے بھی گردش نہیں کی
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
اے مرے ابر کرم! دیکھ یہ ویرانہ جان
کیا کسی دشت میں تو نے کبھی بارش نہیں کی؟
کٹ مرے اپنے قبیلے کی حفاظت کے لیے
مقتل شہر میں ٹھہرے رہے جنبش نہیں کی
وہ ہمیں بھول گیا ہو تو عجب کیا ھے فراز؟
ہم نے بھی میل ملاقات کی کوشش نہیں کی
Bookmarks