کاؤں کاؤں۔۔ ۔۔۔ لہہ دس۔۔ انگلش میں ایک جانور کا نام ”کاؤ“ اور اردو میں ایک اُڑنے والے ”جانور“ کی بولی ”کائیں کائیں“ تو سنی تھی۔ لیکن کاؤں کاؤں کرنے والا قابلِ احترام سوری قابلِ ڈانٹ کتے کی آواز سن کر تو لگتا ہے کہ اس کا اوپر والے دونوں معزز حضرات سے کوئی خاص رشتے داری ہے۔۔ ویسے رہی بات بھینس کی، تو بھینس بھی ایسی آواز واقعی نکال سکتی تھی۔ چلو کاؤ مطبل گائے سے ملتی جلتی جسامت اور کوے سے ملتا جلتا رنگ تو ہوتا ہی ہے بیچاری کا۔۔۔ کتے بیچارے کو تو اوپر والے دو فوائد بھی حاصل نہیں۔
...........
شکر ہے دو ہفتے بعد ہی نہلا دیا ہے، ورنہ اس سے پہلے عید کی عید نہانے کی جگت بھی لگ چکی تھی۔
کچھ تو ترقی ہوئی، جس پر شکر گزار ہوں۔
سال میں باون ہفتے ہوتے ہیں، تو سال میں چھبیس مرتبہ نہانے کا سرٹیفکیٹ تو عنایت کیا دو ہفتوں کے حساب سے۔
........
مجھے آج تک سمجھ نہیں آ رہی اتنی زیادہ مار کیوں پڑی تھی ، کہ چار دن بعد سوجن اتری تھی۔ میں نے فرسٹ (نیچے سے نہیں، اوپر سے) آنے کے باوجود بھی اگر مزدور طبقے کے لوگوں سے انسپائر ہو کے ان جیسا بننے کی کوشش کرنے کا کہہ ہی دیا تھا تو پھر اتنی مار تو نہیں پڑنی چاہئے تھی۔ خیر ہے ، ہو جاتا ہے ، ایسا بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل گریس اور آئل سے ”اکتا“ گیا۔۔ واہ ایکسپرٹ جی۔۔ لگدا اے کچی کلاس وی نئی پڑھی۔
بابا جی، الف کتا یعنی ”اکتا“ نہیں ہوتا، بلکہ کاف کتا یعنی ”ک کتا“ ہوتا ہے۔
تسی وڈے او، تانوں ہن کون سمجھائے۔
..........
ویسے میں سوچ رہا ہوں جتنی کٹ کھا لی ہے ایک ہی قسط میں اس سے اکثر لوگوں کو میری صحت مندی کا راز معلوم ہو گیا ہوگا۔ جیسے شہد کی مکھیوں اور پونڈوں کے کاٹنے سے انسان ”صحت مند“ ہو جاتا ہے۔
خدشہ ہے کہ کہیں کل کو عوام دکانوں سے شہد کی مکھیوں کی ڈیمانڈ کرتی نظر نہ آئے۔
یہ کہتے ہوئے:۔ کہ پونڈ اور شہد کی مکھی جسم کے جس حصے پر سوا تین سیکنڈز کے لئے رکھی جائے، تو جسم کا وہ حصہ منہ سے ایک بار ”اوئی ئی ئی ئی“ کی آواز نکلنے کے بعد کافی زیادہ صحت مند ہو جاتا ہے۔
.............
ٹھیک اے جناب ، ٹھیک اے۔
کافی دیر بعد اتنی بڑی ڈوز دی ہے کسی نے۔
اچھا لگا مجھے، بلکہ اگلی قسط کا بھی انتظار رہے گا۔
اچھا اس لئے لگا کیونکہ ٹیوننگ ہوتی رہنی چاہئے وقتاً فوقتاً۔
اور اچھا اس لئے بھی لگا کیونکہ آپ کا اندازِ بیاں بہت ہی اچھا رہا۔
اگلی قسط کا انتظار اس لئے بھی رہے گا کیونکہ ادبی رائٹر کی تحریر مفت میں مل جائے گی۔
مفت میں ملی ہوئی چیز اس لئے بھی اچھی لگتی ہے کیونکہ خالی کھیسے والا بھی لے سکتا ہے۔
خالی کھیسے والوں کو بھی اگلی قسط کا اس لئے انتظار ہوگا کہ وہ بھی بقول درویش پا جی کے اس ”پی ٹی پروگرام“ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ خالی کھیسے والا کیسے ویاہ کر سکتا ہے۔
لہہ دس، اس کو کہتے ہیں بات سے بات۔ لیکن اس باتوں کے ”گنجھل“ میں اصل بات تو رہ ہی گئی۔
اور وہ اصل بات یہ کہ میں ہو گیا ہوں آلموسٹ لا جواب۔
تو پھر اپنے زخم سہلاتے ہیں بیٹھ کے۔ اب تو واقعی درد ہونا شروع ہو گیا ہے سوچ سوچ کے، کہ اتنی پھینٹی بھی پڑ سکتی ہے؟؟۔
Bookmarks