آپ تیار ہیں بے غیرت بننے کے لیے ؟ ماشاللہ یہ ہوئی نا بات۔۔ اسی چیز کی کمی تھی بس خیر یہ پڑھیں بےغیرت بننے کی ٹپس۔۔

انٹر میں مضمون منتخب کرنے ہوں ، یا ڈگر ی حاصل کرنے کے بعد ڈگری سے ہٹ کر پسند کی جاب کر نی ہو ،لڑکی سے بات کرنی ہو، اس لڑکی کی بات اپنی اماں /ابا سے کرنی ہو یا پھر کوئی لڑکی کسی سے نکاح کرنا چاہتی ہواور وہ لڑکے کو پروپوز کرے ۔۔ پہلے تو اس کو طعنے کا ڈر ہوتا ہے کہ کہیں بے حیا، کریکٹرلیس، چالو جیسے القابات سے نہ نواز دیا جائے حالانکہ اس منافق معاشرے کو یہ نظر نہیں آتا ، کہ جیسے اپنی پسند کا حلال کھانا، حلال کمانا باعث ثواب ہے اسی طرح اپنی پسند کا لڑکا یا لڑکی جائز اور حلال طریقے سے حاصل کرنا بھی خوشحالی کا سبب ہے لیکن ہمارے اسلام کے ٹھیکے داروں کو کون سمجھائے جو صرف دعا کے ہی قائل ہیں چاہے بیٹی کے ارمانوں کا جنازہ نکل جائے اور بالوں میں سفیدی آجائے ، یہاں تک بھی سننے میں آیا ہے ۔۔

’یار تو اپنی شادی کی باتیں اتنے کھلے عام کیسے کر لیتا ہے وہ بھی اپنے بڑوں کے سامنے ‘۔۔۔پھر اس سوال کا جواب بھی ویسا ہی کھلا ڈلا ہونا چاہئے نا مثلاً۔

’جس طرح آپ سڑ ک کنارے کھڑے ہو کر کھانا کھا لیتے ہیں ، سگریٹ پی لیتے ہیں ، نکاح کی بات کرنا اتنا ہی سادہ ہے بھائی ۔۔سفاری پارک یا قائد اعظم کے مزار پر بیٹھ کر’چھپ چھپ‘ کر فیوچر فیملی پلاننگ سے تو اچھا ہی ہے نا کہ اس معاشرے کے’نافق اور من گھڑت‘اسٹینڈرڈ سے گر ِکر بے غیرت ہوجائیں اورکھلم کھلا اپنے والدین سے ڈسکس کریں کم از کم وہ جو عین حلال اور جائز ہے ۔باقی کے لیے دوست زندہ باد‘۔۔۔

’ماں باپ کے آگے اف نہ کرو‘درست لیکن اس حکم سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ’بڑوں کو جواب نہیں دینا چاہئے‘، کیوں ؟ہاں یہ ٹھیک ہے کہ’بڑوں کو بدتمیزی سے جواب نہیں دینا چاہئے‘ورنہ اگر بڑوں کو جواب نہ دینے کا رواج چل پڑے تو پھر عمر کے لحاظ سے تو سارے کرپٹ اور نحوست زدہ سیاست دان ، بیوروکریٹ ، وردی اور بغیر وردی والے بھی بڑے ہیں ، ڈاڑھی تو فرعون کی بھی تھی، آزر [ابراہیم علیہ السلام کے والد]جو بت پرست تھے ۔ ان کے آگے بھی جواب نہ دیں ؟ ابو جہل ابولہب ان سب کو کس کھاتے میں ڈالیں گے ۔۔ ابو جہل کو تو قتل بھی دو کمسن بچوں نے کیا تھا۔۔ اب کیاکریں ؟اکثر اس دلیل کے مقابلے میں کہا جاتا ہے’تم کفر اور اسلام کی جنگ کیوں بنا رہے ہو ان باتوں کو تو وہ تو کافر تھے اس لیے ان کے ساتھ معاملہ کچھ اور تھا[جنت کے پاسپورٹ ہولڈرز تو ہم ہی ہیں بس ] اتنا بتادیں۔۔۔فتح مکہ کے بعد جب بت گرائے گئے تھے توپیغمبراسلام نے کون سی آیت پڑھی تھی اور اس آیت میں باطل کا لفظ تھا یا کفر کا ’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔۔۔‘یہ الفاظ تھے ، لیکن ان کو کون سمجھائے کے باطل غلط کو کہتے ہیں پھر وہ چاہے’اسلام کے بعد غلط ہو یا اس سے پہلے ‘اور کفر کو بس باطل کا’پی ایچ ڈی‘سمجھ لیں ، علم باطل میں ماسٹرز اوربیچلرز تو ہمارے ہاں بہت ہیں ماشاللہ ۔۔۔

ہمارا تو بھائی کلمہ ہی’نہیں‘سے شروع ہوتا ہے’نہیں کوئی معبود ۔۔۔۔۔ آج دیکھ لیں کون کون معبود ہے ۔۔ رسموں کے آگے ہم سجدہ ریز ‘لوگ کیا کہیں گے’کے دیوتا کےآگے اپنی خواہشات کی بلی چڑھانے پر ہم تیار‘،بھائی ہمارے خاندان میں آج تک ایسا نہیں ہوا’جیسے بت کے آگے‘جو اللہ کی مرضی کا بھجن گاتے ہوئے ۔ نوجوانوں کو ڈنڈا دے کر شادی کرواتے ہیں اور پھر طلاق ہوجائے تو کہتے ہیں’بس جو اللہ کو منظور‘

میاں بیوی ایک دوسرے کو گالیاں دیتے رہیں ساری عمر، تو اسے ہماری سوسائٹی سمجھوتا کہتی ہے اور یہ بھی کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں، خاندان میں شادی ، ذات میں شادی ، قوم میں شادی ، فرقے/مسالک میں شادی ، اور بننا چاہتے ہیں امت مسلمہ ۔۔

اکثر’جمعراتی‘فتوے دے رہے ہوتے ہیں ان کا کلمہ الگ ہے ہمارا الگ ہے وہ مسلمان نہیں ہیں ہم ہیں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔اور عام زندگی میں پورے کلمے کو تو چھوڑ دیں پہلے لفظ’لا‘پر عمل کرنے سے ہی جان جاتی ہے ہماری لا مطلب نہیں ۔



اور جب موقعے آتے ہیں کلمے والے ایمان کو ٹیسٹ کرنے کے کسی کو موقع پر دندان شکن’لا‘ یا نہیں کہنے کے تو پھر پہلے سے ہی’یہ تو نہیں ہوسکتا ‘کا ٹھپہ لگا لیتے ہیں اور اپنی بزدلی ، کو’لوگ کیا کہیں گے‘کے پردے میں چھپاتے ہیں مصلحت آمیزی کے شیرے سے بھری سچ کی جلیبی سے سگریٹ سا کڑوا سچ اچھا ہوتا ہے ۔۔ جو موقع پر بولا جائے ، ہاں لیکن پھر قیمت دینی پڑتی ہے ۔۔دریا کے مخالف جانا ہے تولہروں کے تھپڑ کھانے کے لیے تیار رہیں اور پھر خوابوں کا سورج امیدوں کے ساحل سے ابھرتا دیکھیں۔ آئیے ان بزدل غیرت مندوں کی دنیا میں بہادر بے غیرت بنیں