ایک شعر آج نظروں سے گزرا ۔
محبت نام ہے جس کا ، وہ ایسی قید ہے محسن
کہ عمریں بیت جاتی ہیں، سزا پوری نہیں ہوتی
مجھے محترم گریٹ محسود بھائی (معروف ڈیزائنر اور ہر دل عزیز ممبر) یاد آگئے۔۔۔ یہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں کہ گُل خان اُن کے پسندیدہ ترین استاد ہیں۔ اکثر لوگوں کے خیال میں محسود بھائی کو ہر چیز گُل خان نے ہی سکھائی ہے مگر یہ حقیقت بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو محسود بھائی نے زمانے کی ٹھوکروں سے نہ صرف خود سیکھیں بلکہ اپنے استاد گُل خان کو سکھانے کا گُستاخیانہ شرف بھی حاصل کیا۔۔۔ ایک مرتبہ گُل خان اپنے شاگرد محسود بھائی کے گھر پہنچے۔۔ اگرچہ ویسے تو گھر میں راشن پانی الحمد اللہ ایک وسیع مقدار میں موجود تھا مگر اتفاق سے محسود بھائی کے پاس اُس وقت گھر میں اپنے ”استاد کے شایانِ شان“ مہمان نوازی کے لئے کوئی چیز موجود نہ تھی۔۔۔۔ مگر پھر بھی وہ یہ سوچ رہے تھے کہ چونکہ استادِ محترم کی آمد کبھی کبھار ہی ہوتی ہے، لہٰذا یوں اُن کی مہمان نوازی سے تہی دامن رہ جانا یا اُن کی محض ہلکی پھلکی مہمان نوازی کردینا انتہائی بد قسمتی کی بات ہوگی۔۔۔۔ آخر کار کافی سوچ بچار اور شہزاد اقبال بھائی سے مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے گُل خان کو نسوار کھلانے کا فیصلہ کر لیا۔۔ جب گُل خان کے سامنے نسوار پیش کی گئی تو محسود بھائی کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اُن کے استاد محترم کو تو نسوار کے ذائقے، مزے اور لطف کا سِرے سے معلوم ہی نہیں تھا۔۔۔ خیر پہلے تو گل خان نے اس نعمتِ غیر مترقبہ اور نئی ڈش نسوار کو کھانے سے صاف صاف انکار کر دیا۔۔۔ لیکن جب محسود بھائی نے اپنے استاد کے سامنے نسوار کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کئے اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کی مدد سے نسوار کی ”چُٹکیاں“ بنا کے منہ میں ڈالنے کا طریقہ انتہائی دل چسپ انداز سے سکھایا تو گل خان نے نہ چاہتے ہوئے بھی نہ صرف محسود بھائی سے نسوار کی ”چُٹکیاں“ لینے کا طریقہ سیکھا ، بلکہ اس کے بعد مزے لے لے کر نسوار بھی نوش فرما لی۔۔
میرے خیال سے محسود بھائی نے اپنے استاد گُل خان کے سامنے نسوار کی تعریف ان الفاظ میں کی ہوگی:۔
نسوار نام ہے جس کا ، وہ ایسی چیز ہے گُل خان
کہ چُٹکی ختم ہو ”جاتا“ ہے، مزہ ختم نہیں ”ہوتی“۔
وہ دن گیا اور آج کا دن آیا، گل خان ہر رات سونے کے ”بعد“ اور ہر صبح اٹھنے سے ”پہلے“ نسوار کی ”چُٹکی“ لینا نہیں بھولتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ سو رہے ہوتے ہیں تو اُن کے خراٹوں سے ذبح شدہ بھینس کا ڈِکار، نسوار کے پُر لطف ہونے کی پُکار اور باسی نسوار کی مہکار ایک ساتھ برآمد ہو رہی ہوتی ہیں۔ اب تو کئی بار محسود بھائی بھی اپنے دئیے گئے مشورے پر پریشان دکھائی دینے لگے ہیں۔ ان کا تازہ کلام بھی پیشِ خدمت ہے:۔
نسوار میں یہ ”بڑا“ مصیبت ہے گل خانا
دماغ کے انگ انگ کو نچوڑ ”لیتا“ ہے
Bookmarks