قدیم یونانی حساب دان ارشمیدس کے بارے میں مشہور ہے کہ اُس نے ٹھوس اجسام کے پانی میں تیرنے کا اصول نہاتے ہوئے دریافت کیا تھا اور جونہی اُس پر یہ انکشاف ہوا کہ بھرے ہوئے ٹب میں میرے گھُسنے سے جتنا پانی باہر چھلکا ہے وہ میرے وزن کے متناسب ہے تو وہ جوش میں ننگا ہی حمام سے باہر بھاگ نکلا اور سڑکوں پر یوریکا یوریکا پکارنے لگا یعنی میں نے پا لیا، میں نے پا لیا۔
کسی مائع کی کثافت، ٹھوس اجسام کے ڈوبنے اور تیرنے کی وجوہات اور کشش ثقل کا اس سے رشتہ ----- یہ تھے وہ موضوعات جن پر یونانی سائنس دان غور کرتا رہتا تھا اور بالآخر اُس نے یہ اہم اصول دریافت کر لیا کہ جب کسی ٹھوس جسم کو مائع میں ڈبویا جائے تو پانی کے اُچھال سے اُس جسم کے وزن میں جو کمی آجاتی ہے وہ اُس کے مساوی الحجم مائع کے وزن کے برابر ہوتی ہے۔
ارشمیدس بکری کی کھال پر اپنے حسابی فارمولے لکھا کرتا تھا اور ریاضی کی بہت سی علامتیں اس نے خود ایجاد کر رکھی تھیں۔ بکری کی کھال کے چند ٹکڑے جِن پر ارشمیدس نے ذاتی علامتوں میں کچھ ریاضیاتی فارمولے درج کر رکھے تھے برسوں سے سائنسدانوں کی گہری توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار برس تک تو کھال کے یہ ٹکڑے ارشمیدس کی یادگار کے طور پر محفوظ رہے لیکن آج سے کوئی آٹھ سو برس پہلے ایک پاردی نے ارشمیدس کی عبارت کھُرچ کر اُن پر مسیحی مناجات درج کر دی۔ تاہم اب جدید ایکسرے ٹیکنالوجی کی مدد سے اُس مناجات کے نیچے سے ارشمیدس کی کھُرچی ہوئی عبارت واگزار کی جارہی ہے۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مسودہ ارشمیدس کے ہاتھ کا نہیں بلکہ دسویں صدی عیسویں میں تیار ہونے والی اُن نقول میں سے ہے جن میں ارشمیدس کی اصل تحقیق کو محفوظ کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس صورت میں بھی اِن دستاویزات کی قدروقیمت کم نہیں ہوتی کیونکہ یہ ارشمیدس کے کام کی واحد نقل ہے جسے آئندہ نسلوں کے لیئے محفوظ رکھنا انتہائی اہم ہے۔
سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نے بتایا ہے کہ بکری کی کھال سے بنے ہوئے ایک ’صفحے‘ کو ایکسرے کی آنکھ سے پڑھنے میں 12 گھنٹے لگ جاتے ہیں کیونکہ پادری کی خامہ فرمائی کے نیچے ارشمیدس کی تحریر کے جو دُھندلے سے نقوش باقی ہیں اُن کی روشنائی میں موجود لوہے کے عُنصر کو مخصوص شعاؤں کی مدد سے چمکایا جاتا ہے اور پھر اُن کی نئی تصویر کشی کی جاتی ہے۔
اس نازک عمل کی نگرانی کے لیئے ماہرینِ ایکسرے کے علاوہ قدیم دستاویزات کی خصوصی حفاظت کا ہُنر جاننے والے عالمی شہرت کے ماہرین اور قدیم مخطوطات میں دلچسپی رکھنے والے سکالرز بھی موقعے پر موجود تھے اور اصل عبارت کے بے نقاب ہونے کا آنکھوں دیکھا حال ایک ویب کاسٹ کے ذریعے انٹرنیٹ پر بھی نشر کیا گیا جِس سے دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے اِستفادہ کیا۔
Bookmarks