3. .مل لیا کرتا تھا۔ بہت سے لوگ ان واقعات اور حالات کے عینی شاہد ہیں۔ اس ’’خلیفہ ثانی‘‘ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ جماعتاحمدیہ میں اٹھانوے فیصد منافقہیں جس کی بنا پر جماعت کو ان کے پاگل ہونے کی افواہ اڑانی پڑی۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بستر پر گزارنے کے بعد جب یہ شخصیت دنیا سے رخصت ہوئی تو اس کا جسم بھی عبرت کا نمونہ تھا۔ ایک لمبا عرصہ تک ایک ہی حالت میں بستر پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش اکڑ کر گویا کہ مرغ کا چرغہبن چکی تھی۔ ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہری پر گھنٹوں ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ جسم کی کافی دیر تک صفائی کی گئی اور پھر عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیز روشنی میں لاش کواس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر مصنوعی نور نظر آئے لیکن قادیانی تو ساری باتوں سے واقف تھے۔ خدا تعالیٰ ایسے حقیقی انجام اور مصنوعی نور سےہر مسلمان کو محفوظ رکھے،آمین۔
قادیانی جماعت کے خلیفہ دوم کی تدفین کے بعد اس کے عزیز واقارب اور پوری جماعت احمدیہ نے سکھ کا سانس لیا۔ پھر مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھنے کے خاطر انھی کے بڑے بیٹے مرزا ناصر احمد گدی نشین ہوئے۔ یہ حضرت گھوڑوں کی ریس کے بڑے شوقین تھے۔ ان کے اس شہنشاہی شوق نے چناب نگر(سابقہ ربوہ) میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لے لی۔ خلیفہ مرزا ناصر احمد نے ۷۸ سال کی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ایک۲۷ سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ’’آج دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا‘‘ اس ۷۸ سالہ بوڑھے دولہا نے اپنے ازکار رفتہ اعضاء میں جوانی بھرنے کے لیے کشتوں کا استعمال شروع کر دیا اور کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ اس کا جسم پھول کر کپا ہو گیا اور آناً فاناً خدائے قہار کے قہر کی گرفت میں آکر کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر ملک عدم کو سدھار گیا۔
آنجہانی مرزا ناصر احمد کا چھوٹا بیٹا مرزا لقمان شادی شدہ تھا اس کا ایک بیٹا تھا۔مرزا طاہر احمد نے اپنی گدی نشینی کا پروگرام ترتیب دیا تو اس سودے بازی میں اپنی بیٹی کا رشتہ بہت پہلے مرزا لقمان سے کر دیا اس کی پہلی بیوی کو طلاق دلوائی گئی اور اس سے اس کا بیٹا چھین لیا۔ جب مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو ان کے بڑے سوتیلے بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آگئے۔ ان کی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیتسراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر آگئے۔ لیکن انھیںبزور قوت اپنے گھروں میں دھکیل دیا کر ’’خلافت‘‘ پر قبضہکر لیا گیا۔ مرزاطاہر احمد جماعت کے چوتھے خلیفہ آمرانہ مزاج کے حامل تھے۔ ان کی شروع سے یہ عادت تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مانتے تھے ان کی فرعونی عادات نے نہ صرف مرزا طاہر بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل کیا۔ اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن اپنے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے دور خلافت میں بھی کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں تھی وہ جب چاہتے اور جسے بھی چاہتے پل بھر میں ذلیل کر دیتے ۔ انھوں نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ قادیانی لڑکیوں کو سدا سکھی رہنے کی دعا دینے والا یہ خلیفہ دس لاکھ کا حق مہر لکھوانے کے باوجود اپنی بیٹی کو طلاق سے نہ بچا سکا آخر مرزا لقمان کی پہلی بیوی نے طلاق لینے اور بچہ چھیننے پر بددعا دی ہو گی! مرزا طاہر احمد ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھااور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہر احمد چاہتے تھےکہ عورتیں صرف ’’احمدی لڑکے‘‘ ہی پیدا کریں جن میں ذاتپات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘پیدا کرنے کی گولیاں دیتے رہےجن میں مردانہ طاقت بند ہونے کادعویٰ کیا جاتا۔ شاید قدرت ان کےان ہتھکنڈوں پر ہنس رہی تھی دوسروں کو لڑکے دینے والا یہ ڈاکٹر (ہومیو پیتھک) اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور ان کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جن سے دنیا حقیقت جانگئی۔ خلیفہ طاہر احمد نے اپنی عمر کے آخری چند سالوں میں اسدیدہ دلیری سے جھوٹ بولے کہکراماً کاتبین بھی ان کے جھوٹ لکھتے ہوئے حیران ہوتے ہوں گے وہ جھوٹ کی انتہا پر پہنچتے ہوئے ایک روز بیس کروڑ احمدیوں کی جماعت کاخلیفہ ہونے کا دعویٰ کر بیٹھے۔ ان کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب وغریب حرکتیں کرتے رہتے۔ کبھیباوضو نماز پڑھاتے تو کبھیبے وضو ہی پڑھا دیتے۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع ۔ کبھی دوران نماز ہی یہ کہتے ہو ئے گھر کو چل دیتے کہ ٹھہرو! ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنےپیشرؤں کی طرح گرتے پڑتے اٹھتے بیٹھتے لیٹتے روتے مرزا طاہر احمد کی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی پھر پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیاہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک تعفن اٹھا اور ان پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اور لاش بند کر کے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ مناظر براہِ راست ٹی وی پر دیکھے۔ کافی لوگ اس کے گواہ ہیں۔
میں اپنے قادیانی دوستوں اور رشتہ داروں سے اپیل کرتا ہوں کہ آپ نے تو اپنے روحانی سربراہوں کی حیات اور اموات کودیکھا ہے پھر قادیانی چنگل سے کیوں نہیں نکل جاتے؟ مجھے آپ لوگوں سے ہمدردی ہے کیونکہ میرا اور آپ کا ۵۵سال کا ساتھ رہا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ جس طرح اس نے قادیانیت سے نکلنے میں میری غیبی مدد فرمائی ہے اس طرح باقی قادیانیوں کی بھی مدد فرمائے اور وہ منافقت کی زندگی چھوڑ کر حقیقی زندگی گزارنا شروع کر دیں ۔ آمین یا رب
agr ap jpg convert kar dany to boat asni ho gi.kafi dosto k mobile main urdu dik tara sy red ni hoti
Bookmarks