السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
بہت سے لوگوں کے خیال میں توبہ اور استغفار کا تعلق صرف زبان سے ہے، یعنی زبان سے یہ کہ دینے سے کہ "میں اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی کا سوال کرتا ہوں اور ان سے تائب ہوتا ہوں/ہوتی ہوں"-توبہ ہو جاتی ہے،لیکن ان الفاظ کا اثر نہ انکے دل پر ہوتا ہے نہ اسکے اثرات کا اظہار انکے اعمال پر دکھائ دیتا ہے،
امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں کہ شریعت میں توبہ کا مطلب گناہوں کو اللہ کے خوف سے چھوڑنا،اپنی غلطی پر نادم ہونا،آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرنا اور جن اعمال کی تلافی ہو سکے انکے لئے بقدر استطاعت کوشش کرناہے، اور جب یہ چاروں باتیں جمع ہو جائیں تو اب پھر توبہ کی شرائط پوری ہو گئیں-
استغفار سے متعلق امام راغب فرماتے ہیں:
استغفار قول اور فعل دونوں سے گناہوں کی معافی طلب کرنے کا نام ہے-
امام نووی فرماتے ہیں:
ہر گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے،اگر اس گناہ کا تعلق صرف بندے اور اللہ کے درمیان ہو،کسی اور سے اسکا تعلق نہ ہو تو اس گناہ سے بچنے کیلئے یہ شرائط ہیں:
1 اس گناہ کو چھوڑ دے
2 اس پر نادم ہو
3 اوراس بات کا عزم کرے کے آئندہ اسکا ارتکاب نہیں کریگا-
اگر ان تین شرائط میں سے کوئ ایک بھی مفقود ہو گئ تو اسکی توبہ درست نہیں-اگر گناہ کا تعلق بندے سے ہو تو ان تین شرائط کے علاوہ چوتھی یہ کہ حق دار کو اسکا حق ادا کرے-
اگر یہ حق مال کی صورت میں ہے تو مال واپس کرے،
اگر کسی پہ ایسا الزام راشا کہ جسکی سزا قذف ہو تو حق والے کو موقع فراہم کرے کے وہ اس پر حد قائم کرے، یا اس سے عفو اور در گزر کی درخواست کرے،
اور اگر کسی کی غیبت کی ہے تو اسکی معافی طلب کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی قسم میں دن میں 70 سے زیادہ مرتبی اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور اسکی طرف توبی کرتا ہوں (بخاری مع الفتح 101/11)
اور آپ صلی اللہ ّعلیہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو اللہ کی طرف توبہ کرو بیشک میں ایک دن میں اسکی طرف سو 100 مرتبہ توبہ کرتا ہوں۔(مسلم 2076/4)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص ہی کلمات کہے اللہ تعالی اسے بخش دیتا ہے خواہ لڑائ کے میدان سے بھاگا ہو،
ا’سُتغفر اللہ الذی لا الہ’ الاٌ ھو الحیٌ القیوٌم و اتوب الیہ۔
میں اللہ سے بخشش مانگتا/مانگتی ہوں جسکے علاوہ کوئ عبادت کے لائق نہیں اور میں اسی کی طرف توبی کرتا/کرتی ہوں۔(ابو داوءد85/2، ترمذی 569/5)
Bookmarks