سیّدہ ‘طیبہ ‘طاہرہ فاطمة الزہرا بےشمار فضائل کی حامل ہیں۔آپ خاتون جنت ہیں‘جنت میں تمام جنتی خواتینِ عالم کی سردار ہیں۔سُلطانِ دوعالم فخرِ آدم وبنی آدم ‘حضور محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی صاحبزادی ہیں۔اگر چہ آپ چاروں بیٹیوںمیں سے سب سے چھوٹی تھیں،لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی سب سے زیادہ حقدار ٹھہریں۔#اُمُّالمومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ‎ ‎عنہا کے حُسنِ تربیت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ اقدس نے آپ کے کردار کو انتہائی بُلندیوں پر پہنچادیا تھا۔بیٹی کی حیثیت سے ‘بیوی کی حیثیت سے ‘ماں کے کردار کی حیثیت سے انسانی سرفرازی کے لحاظ سے آپ اپنی مثال آپ تھیں۔آپ فقرودرویشی ‘استغناءاورسخاوت میں اپنی مثال آپ تھیں۔آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی صفاتِ حسنہ کا پیکر تھیں،اپنے اباّجان کے کردار کی احسن ترین تنویر تھیں۔خاص طور سے آپ نے خواتینِ‏‎ ‎اسلام کیلئے جو اُسوئہ حسنہ پیش کیا ہے ،اس کی مثال نہیں ملتی ۔مشکیزے میںپانی خودلاتی ہیں‘جس سے سینے اورکندھوں پر نشانات پڑگئے ۔#گھر کے تمام امور خود انجام دیتی ہیں،چکی اس حالت میں پیستی ہیں کہ‎ ‎گود میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ‎ ‎ہیں‘ کندھے پر حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ لٹکے ہوئے ہیں۔ہاتھ چکی پیس رہے اورزبان پر قرآن حکیم کی تلاوت جاری ہے۔تین تین دن فاقے سے گزارے مگر کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پہ آنے نہ پایا۔جو نہی وقت ملتا مصلے پر کھڑی ہوجاتیں۔تمام تمام رات مصلے پر عبادت میں گزارتیں ۔صبح کی اذان ہوتی تو فرماتیں”خدایا تیری بندی عبادت کا حق ادا نہیں کرپائی کیونکہ تیری رات ہی مختصر ہے“۔ایک خاتون میں جس قدر خوبیاں ہونی چاہئیں وہ سب آپ کی ذات میں موجود تھیں۔حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ کا نام ہے۔آپ آنحضرت#سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی صاحبزادی تھیں اورتمام مکارم اخلاق وفضائلِ اوصاف آپ پر ختم ہوگئے تھے ۔آپ کی والدہ محترمہ حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ‎ ‎عنہا تھیں۔آپ سیّدہ خواتینِ عالم اورسردار النساءاہلِ جنت ہیں۔آپ کے القاب زہرا‘طاہرہ‘مطہرہ‘زاکیہ‘راضیہ‘مرضیہ اور بتول ہیں۔بچپن ہی سے حضر ت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طبیعت میں بہت زیادہ متانت ‘سادگی اورسنجیدگی تھی۔آپ کا دل کھیل میں نہیں لگتا تھا۔آپ کہیں آنا جانا پسند نہ فرماتی تھیں۔ہمیشہ اپنی والدہ محترمہ کے پاس بیٹھی رہتی تھیں۔آپکی یہ سادگی اوراستغناآنحضرت‎ ‎صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت پسند تھا‘اسی وجہ سے آپ بتول کے لقب سے یادفرمائی جاتی تھیں۔چونکہ آپ #آنحضرت صلی اللہ علیہ‎ ‎وسلم سے صورت وسیرت میں بہت مشابہ تھیں ‘اس لحاظ سے آپ کا لقب زاکیہ اورراضیہ قرار پایا۔ آپ کی ولادت باسعادت نبوت سے پانچ سال قبل ہوئی۔