طبی سائنسدانوں نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اگرچہ اس کا شکار مغربی معاشرہ زیادہ ہے تاہم پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے نزدیک بیوی ”ملازمہ“ اور بزرگ صرف ”گھر کی دیکھ بھال“ کرنے والوں سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں
پطرس بخاری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ”دوستی پرانی ہوجائے تو خاموشی بھی مزہ دینے لگتی ہے“ بہت سے شادی شدہ جوڑے خصوصاً مرد کہتے ہیں کہ ”بیگم پرانی ہونے لگے تو اس سے بات کرنے سے بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کرلی جائے کیونکہ جب بات کرنے کو دل ہی نہ چاہے تو کیا بات کی جائے اور باتیں بھی کریں تو کیا کریں کہ سب باتیں تو بہت پہلے ہی کرچکے ہوتے ہیں۔
اگر آپ بھی یہی خیالات رکھتے ہیں تو پھر اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور جان لیں کہ شریک زندگی سے گفتگو کرنا وقت کا زیاں نہیں بلکہ طبی لحاظ سے بھی بہت مفید ہے۔ کیا کہا.... میاں بیوی کی گفتگو کا طب سے کیا تعلق؟ ارے بھئی حیران نہ ہوں‘ ہم جو کہہ رہے ہیں بقائمی ہوش و حواس کہہ رہے ہیں اور اس میں لفظوں کا کوئی ہیرپھیر نہیں بلکہ جو بھی ہے سچ ہے بلکہ سوفیصد سچ اور یہ سچ خیال پر مبنی نہیں ہے بلکہ طبی سائنسدانوں نے اسے عقل کی کسوٹی اورعمل کے میزان پر تولا ہے اور پھر کہا ہے کہ ”شریک زندگی سے اچھی گفتگو انسان کے بلند فشارخون (ہائی بلڈپریشر) کو کم کرتی ہے جولوگ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں اپنے رفیق زندگی سے بچھڑ جاتے ہیں وہ جذباتی گھٹن کا شکار ہوکر عارضہ قلب میں ایسے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں کہ جن کے رفیق زندگی زندہ اور ان کے پاس ہوتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ شادی کے ابتدائی دنوں میں شوہر بولتے ہیں اور بیگمات صرف سنتی ہیں اور اس کے بعد بقایا ساری زندگی صرف بیویاں بولتی ہیں اور شوہر چپ چاپ سنتے ہیں لیکن اب جبکہ سائنسدان بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان اچھی گفتگو جذباتی طور پر انسان پر خوشگوار اثر ڈالتی ہے اور اس کے طبی فوائد بھی ہیں تومیں ان بیگموں کو جن کے شوہروں کو یہ شکوہ ہے کہ ”وہ“ بہت بولتی ہیں انہیں یہی مشورہ دوں گی کہ بھئی اگر شوہر کی صحت عزیز ہے تو اس کو بھی بولنے دیں۔ لیکن ساتھ ساتھ جو بیویاں شوہروں کے حاکمانہ رویے اور حکم چلانے کی عادت کے باعث ان کے سامنے چپ چاپ کھڑی رہنے کی عادی ہیں تو میں ان شوہروں سے بھی یہی کہوں گی کہ اپنے بچوں کی ماں اور گھر کا چین و سکون عزیز ہے تو بیوی پر حکم چلانا چھوڑیں اور اسے خوفزدہ کرکے اپنی مردانگی کو تسلیم کروانے کی عادت بدلیں۔ بیوی سے نرم اور خوشگوار لہجے میں باتیں کریں اور ہلکے پھلکے موضوعات پر بات چیت کرتے رہیں۔ اس طرح بیوی جو بے چاری دن بھر آپ کے خوف میں مبتلا رہ کر ذہنی دبائو کی مریضہ بن جاتی ہے اس کی بھی حالت سنبھلے گی۔
اگرچہ مغربی ممالک میں زندگی کے تمام شعبوں میں تحقیق کی عادت نے لوگوں کو بہت سے آرام و آسائش بخشے ہیں لیکن جس دلچسپ تحقیق کا تذکرہ میں نے اوپر کیا ہے دیکھا جائے تو اس سے پاکستان کے سماجی ماحول میں رہنے والے شادی شدہ جوڑے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ بات ہے تو صرف رویے میں تھوڑی سی تبدیلی لانے کی۔
بات یوں ہے کہ کچھ عرصے قبل نیویارک کی اسٹیٹ یونیورسٹی کے طبی ماہرین اس سوال پر سوچنے لگے کہ جب خون کی رفتار میں اتار چڑھائو کا تعلق ماحول اور صورتحال سے ہے تو شادی شدہ لوگوں پر یہ کس طرح اثرانداز ہوتی ہے؟ بس اس خیال کے آنے کی دیر تھی کہ کچھ طبی محققین سرجوڑ کر بیٹھے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچے کہ دیکھا جائے کہ شادی شدہ جوڑے جب آپس میں خوشگوار موڈ میں بات چیت کرتے ہیں تو اس کے خون کی گردش پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب اجنبیوں سے بات کی جائے تو خون کی گردش کی کیا صورتحال ہوگی؟ جب یہ نکتے طے پاگئے تو تحقیق کا مرحلہ شروع ہوا۔ سو سے زائد ہر عمر کے شادی شدہ جوڑوں کو رضاکارانہ طور پر اس بات کو جاننے کیلئے منتخب کیا گیا۔ تحقیق کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد طبی سائنسدانوں نے جو نتائج اخذ کیے وہ ایک امریکی طبی جریدے میں شائع ہوئے جس میں کہا گیا کہ ”جب شادی شدہ جوڑے خوشگوار موڈ میں اپنی ساتھی سے محو گفتگو تھے تو اس دوران ان کا فشار خون کم تھا لیکن جب وہ کسی اجنبی سے بات کررہے تھے تو ان کا فشار خون زیادہ ہورہا تھا۔“
تحقیق یہیں پر ختم نہیں بلکہ اسے اور آگے بڑھایا گیا اور ایسے جوڑے بھی منتخب کیے گئے جن کی شادی شدہ زندگی کئی عشروں پر مشتمل تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے لوگ بھی تلاش کیے گئے جن کے شوہریا بیوی طویل ازدواجی زندگی کے بعد انہیں تنہا چھوڑ کر ابدی سفر پر چل دئیے تھے۔ ان لوگوں کے مختلف طبی جائزے لینے کے بعد معالجین اس نتیجے پر پہنچے کہ جن کے شوہر یا بیوی طویل ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد عمر کے آخری سالوں میں دوسرے کو تنہا چھوڑ کر موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں تو ایسے میں تنہائی کا دکھ اور جذباتی گھٹن کے باعث یہ افراد امراض قلب اور بلند فشار خون کے مرض میں زیادہ مبتلا ہوجاتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ایسے افراد کے لواحقین کومشورہ دیا ہے کہ اس طرح کی صورتحال میں وہ اپنے بزرگ کی زیادہ دلجوئی کریں۔ ان سے باتیں کریں اور انہیں اہمیت دیں تاکہ وہ خطرناک امراض کا شکار ہوکر وقت سے پہلے ہی اس دنیا سے رخصت نہ ہوں۔“
طبی سائنسدانوں نے جن باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے اگرچہ اس کا شکار مغربی معاشرہ زیادہ ہے تاہم پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کے نزدیک بیوی ”ملازمہ“ اور بزرگ صرف ”گھر کی دیکھ بھال“ کرنے والوں سے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں اب جبکہ مغرب کے طبی سائنسدان بھی ”باہمی گفتگو“ کی افادیت تسلیم کررہے ہیں تو ہمیں دوسروں کو چھوڑئیے خود اپنی صحت ہی کے خاطر رویوں میں تبدیلی لانی چاہیے۔
میاں بیوی گاڑی کے دوپہیے ہیں لیکن گاڑی میں ایک پہیہ ٹریکٹر اوردوسرا رکشہ کا ہو تب بھی بات نہیں بنتی۔ بات اس وقت بنتی ہے اور گاڑی تب ہی درست انداز میں چلتی ہے جب دونوں پہیوں میں توازن اور برابری ہو۔ اس لیے شوہر ہو یا بیوی دونوں کو چاہیے کہ خوشگوار زندگی کیلئے آپس میں خوشگوار تعلقات رکھیں۔ ہنستے بولتے اور ہلکے پھلکے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے زندگی کو گزاریں اور گھر میں اگر کوئی بزرگ ہے تو اس کو بھی وقت دیں اور دو چار باتیں کرلیں کہ زندگی کا نام ہی ”دوسروں سے شفقت و محبت کا برتائو “ ہے۔ اگر کبھی میاں بیوی میں ناچاقی بھی ہوجائے تب بھی بات چیت بند نہ کریں کہ اسی سے مسئلے کے حل نکلتے ہیں۔ برصغیر کے مشہور ترقی پسند شاعر سردار جعفری کے ایک شعر کا یہ مصرعہ یاد رکھیں!
”گفتگو ختم نہ ہو بات سے بات چلے“

بشکریہ عبقری میگزین