کبھی کبھی کچھ گزرتا نہیں پر دل میں یہ آرزو اٹھتی ہے کہ چلو کچھ نیا کیا جائے جس سے لوگوں کو متوجہ کیا جائے داستان ایسی سنائی جائے جس سے اور مجبور کیا جائے کہ کیا واقعی یہ ان صاحب پر گزری ہے؟؟ یا پھر انھوں نے کوئی لمبی چوڑی چھوری ہے۔ بات ذرا یوں ہے کہ اس شعر کو ہم اپنے ہی گھر والوں کو بھیج بیٹھے گھر سے پوچھا گیا ؟ کون آپ کو تنہا کر بیٹھے اب ذرا بتاؤ کہ ایسے میں بندہ کیا جواب دے میں نے بھی کہ دیا کہ اگر ایسا کچھ حال گزرا ہوتا تو میں یہ بھیجتا ہی کیوں سامنے جو مخاطب تھا وہ بھی ہم سے واقف تھا کہنے لگا کہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ ایسے میں چپ ہی ساڈھ لینا چاہیے آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟
حالِ دل کے کچھ باب سنانا چاہتا ہوں
خود پر گزرے کچھ احوال سنانا چاہتا ہوں
تھا میں کیسا اور کیا بن گیا ہوں
مزاج کے تغیّر کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں
مانتا ہوں میں غلط ہوں پر یہ بھی سن لو
میں اس کی غلطیوں کے انداز بتانا چاہتا ہوں
وفا کرنا اور اس کو بے وفائی کا نام دینا
اس نا آشنا کے الفاظ سے آشنا کرانا چاہتا ہوں
ستم ہی کیا ہوتا دغا کیوں دے گیا
اس کے ہر ایک ظلم کی داستان سنانا چاہتا ہوں
مدّتوں یاد رکھے گا زمانہ ہماری دوستی کو
پر اب دشمنی کو بھی یاد کروانا چاہتا ہوں
بے سبب تو کبھی لاوا بھی نہیں پھٹا کرتا
میں اس لاوے کو اور بھڑکانا چاہتا ہوں
اس عاجزؔ کو اب باز ہی رکھو اب کسی عاجزی سے
دوستی کے باب کو اب بند کرنا چاہتا ہوں
Bookmarks