کئی آرزو کے سراب تھے، جنہیں تِشنگی نے بُجھا دیا
میں سفر میں تھا کسی دشت کے، مجھے زندگی نے بُجھا دیا
وہ جو کچھ حسین سے خواب تھے، میرے آنسوؤں ہی میں گُھل گئے
جو چمک تھی میری نِگاہ میں، اُسے اِک نمی نے بُجھا دیا
یہ دُھواں دُھواں جو خیال ہیں، اِسی بات کی تو دلیل ہیں
کوئی آگ مجھ میں ضرور تھی، جسے بے حسی نے بُجھا دیا
میرے وسعتوں کی حدوں تلک، میری دھڑکنوں ہی کا شور ہے
میرے گِرد اِتنی صدائیں تھیں، اُنہیں خامشی نے بُجھا دیا
کہاں ختم ہے مجھے کیا پتہ، میری کشمکش کا یہ سلسلہ
میں چراغ بن کے جلا ہی تھا، مجھے پھر کِسی نے بُجھا دیا
وہ جو اِک سفر کا جنون تھا، وہ جو منزلوں کی تلاش تھی
جو تڑپ تھی مجھ میں کہاں گئی، مجھے کِس کمی نے بُجھا دیا
وہ ہُوا تھا رات جو حادثہ، مجھے شاید اِتنا ہی یاد ہے
کوئی جگنوؤں کی قطار تھی، جسے روشنی نے بُجھا دیا
Bookmarks