mushrikeen o nasara ki gumrahi k asbab
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ!
شیطان نے انسانیت کو گمراہ کرنے کے طرح طرح کے حربے استعمال کئے ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کے لئے وسوسے ڈالے۔۔۔تو کہیں لوگوں کو برائیوں میں مبتلا کیا ۔۔۔۔کہیں لوگوں کو دنیا کی رنگینیوں میں گم کر کے عیش و عشرت میں مبتلا کیا ۔۔۔۔تو کہیں آخرت کو بھلانے میں مدد دی ۔۔۔ ۔ لیکن ان سب واروں سے زیادہ کار گر وار جو شیطان کا تھا۔۔۔ وہ لوگوں کو شرک و کفر میں مبتلا کرنا تھا ۔۔۔جو بالآخر ایسی منزل ہوتی ہے جس کے بعد شیطان کو لوگوں کو نیکیوں سے روکنے کی یا برائیوں میں مبتلا کرنے پر محنت کی ضرورت نہیں ہوتی ۔۔۔۔بلکہ ایسے لوگوں کے تمام اچھے اعمال شرک کے اندھیروں میں گم ہوجاتے ہیں ۔
لیکن شیطان کے لئے لوگوں کو ایسی منزل تک پہنچانااتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔۔یعنی شیطان لوگوں کے دلوں میں نیکیوں سے روکنے پر وسوسہ تو ڈال سکتا ہے ۔۔۔۔ یا برائیوںمیں موجود نفسانی لذتوں کی وجہ سے برائیوں کی طرف رہبری کرنا تو آسان ہے ۔۔۔۔لیکن ایمان والوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی غیر کو معبود سمجھنے کا اعتقاد بنانا اتنا آسان نہیں ۔۔۔۔اور نہ ہی یہ عمل وسوسہ سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔بلکہ اس کام کے لئے شیطان کو برسوں محنت کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔تب جاکر شیطان کو صرف اتنی کامیابی ملتی ہے کہ وہ لوگوں کی ایمان کی بنیادوں میں دڑاریں ڈالنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔۔۔بس یہی شیطان کی کامیابی لوگوں کو صراط مستقیم سے دور لے جانے کا سبب بن جاتی ہے ۔
کتب تفاسیر میں آتا ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلے گمراہی کی ابتداءبت پرستی سے شروع ہوئی ۔۔۔۔اور اس بت پرستی کی گمراہی میں مبتلا ہونے والی قوم ،قوم نوح تھی ۔۔۔۔سورہ نوح (آیت 23) میں حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں مشرکین کے معبود ”دو۔۔سواع۔۔یغوث۔۔یعوق ۔۔نسر“ کا تذکرہ آیا ہے ۔۔۔ ۔ جن کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
وھی اسماءرجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام ،فلما ھلکوا ،اوحی الشیطان الی قومھم :ان انصبو ا الی مجالسھم التی کانوا یجلسون فیھا انصابا،وسموھا باسمائھم ،ففعلوا،فلم تعبد ،حتی اذا ھلک اولئک ،ونسخ العلم عبدت الخ(بخاری کتاب التفسیر ، سورہ نوح ،ح:492)
یعنی یہ سب بت دراصل قوم نوح علیہ السلام کے صالح بزرگ اولیاءاللہ لوگ تھے ،ان کے انتقال کے بعد شیطان نے اس زمانے کے لوگوں کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان بزرگ کی عبادت گاہوں میں ان کی کوئی یاد قائم کریں ،چناچہ انہوں نے وہاں نشان بنا دئیے اور ہر بزرگ کے نام پر انہیں مشہور کیا،جب تک یہ لوگ زندہ رہے تب تک تو ا س جگہ کی پرستش نہیں ہوئی ،لیکن ان( نشانات اور یادگار قائم کرنے والے) لوگوں کے مرجانے کے بعد اور علم کے اٹھ جانے کے بعد (جو لوگ آئے بوجہ جہالت کے انہوں نے باقاعدہ ان جگہوں کی اور ان ناموں کی) پوجا پاٹ شروع کردی۔
او رابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
عند ابی جعفر: قال :ثم ذکروا رجلا مسلما،وکان مجببا فی قومہ ،فلما مات ،اعتفکو احول قبرہ فی ارض بابل ،وجزعوا علیہ ،فلما رای ابلیس جزعھم علیہ ،تشبہ فی صورة انسان ،ثم قال : انی اری جزعکم علی ھذا الرجل ،فھل لکم ان اصورلکم مثلہ ،فیکون فی نادیکم فتذکرو نہ ؟ قالوا:نعم ،فصور لھم مثلہ ،قال :ووضعوہ فی نادیھم ،وجعلوا یذکرونہ ،فلما رای مابھم من ذکرہ قال :ھل لکم ان اجعل فی منزل کل رجل منکم تمثالا مثلہ ،فیکون لہ فی بیتہ فتذکرونہ ؟ قالوا:نعم ،قال فمثل لکل اھل بیت تمثالا مثلہ ،فاقبلوا فجلعوا یذکرونہ بہ ،قال :وادرک ابناﺅھم فجعلوا یرون مایصنعون بہ ،قال :وتناسلوا ،ودرس امر ذکرھم ایاہ ،حتی اتخذہ الھا یعبدونہ من دون اللہ اولاد اولادھم ،فکان اول ماعبد من دون اللہ :الصنم الذی سموہ :ودا۔ الاصنام التی اتخذوھا اضلوا بھا خلقا کثیرا،فانہ استمرت عبادتھا فی القرون الی زماننا ھذا ،فی العرب و العجم الخ (تفسیر ابن ابی حاتم)
ابو جعفر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں ،ایک دیندار ولی اللہ مسلمان جسے لوگ بہت چاہتے تھے اور بڑے معتقد تھے ،وہ مر گیا۔یہ لوگ مجاور بن کر اس کی قبر پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا اور اسے یاد کرنا شروع کیا اور بڑے بے چین اور مصیبت زدہ ہو گئے ، ابلیس نے یہ صورت دیکھ کر انسانی صورت میں آکر ان سے کہاکہ اس بزرگ کی یادگار کیوں نہیں قائم کر لیتے ؟جو ہر وقت تمہارے سامنے رہے اور تم اسے نہ بھولو۔سب نے اس کی رائے کو پسند کیا۔ابلیس نے ان بزرگ کی تصویر بنا کر ان کے پاس کھڑی کر دی جسے دیکھ دیکھ کر لوگ اسے یاد کر تے تھے اور اس کی عبادت کے تذکرے رہتے تھے جب وہ سب اس میں مشغول ہو گئے ،تو ابلیس نے کہا تم سب کو یہاں آنا پڑتا ہے ،اس لئے یہ بہتر ہوگا کہ میں اس کی بہت سی تصویریں بنادوں تم انہیں اپنے گھروں میں رکھ لو ،وہ اس پر بھی راضی ہوئے اور یہ بھی ہو گیا۔اب تک یہ بت اور یہ تصویریں صرف یاد کے ہی تھے مگر ان کی دوسری پشت میں جاکر براہ راست ان ہی کی عبادت ہونے لگی۔ اصل واقعہ سب فراموش کر گئے اور اپنے باپ دادوں کو بھی ان کی عبادت کرنے والا سمجھ کر خود بھی بت پرستی میں مشغول ہوگئے ،ان کا نام ”ود “ تھا یہی وہ پہلا بت ہے جس کی پوجا اللہ کے سوا کی گئی ،انہوں نے بہت مخلوق کو گمراہ کیا ،اس وقت سے لے کر اب تک عرب و عجم میںاللہ کے سوا دوسروں کی پرستش شروع ہو گئی اور مخلوق خدا بہک گئی۔
محترم قارئین کرام !
یہاں سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ ان بت پرستوں کے معبود خیالی نہیںتھے ۔۔۔۔بلکہ کسی وقت کے ولی اللہ تھے ۔۔۔۔اور دوسری اہم بات غور کرنے والی یہ ہے کہ ایسا نہیں تھا کہ لوگوں نے ایک ہی مرحلہ میں غیر اللہ کو اپنا معبود مان لیا تھا ۔۔۔۔۔بلکہ پہلے مرحلہ میں شیطان نے لوگوں کی ایمان کی عمارت میں دراڑ ڈ النے کے لئے نیک بندوں کی تصاویر یا بت بنانے کی ترغیب دی یا اُن کو تصاویر بناناسکھایا۔۔۔۔تاکہ لوگ جو ان نیک بندوں سے عقیدت رکھتے تھے وہ اُن کو اپنے نظروں کے سامنے رکھ سکیں ۔
اس کے بعد دوسرے مرحلہ میں بھی آنے والی نسلوں نے ان تصویروں یا بتوں کو اپنا معبود نہ سمجھا ۔۔۔۔بلکہ اُنہوں نے ان تصویروں یا بتوں سے اپنے باپ دادا کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے اور ہی رنگ دینا شروع کردیا ۔ ۔۔۔وہ ان نیک بندوں کے متعلق گمان کرنے لگے کہ یہ سنتے بھی ہیں ،دیکھتے بھی ہیں ، لوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان لوگوں کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔لہذا ان بزرگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لئے انہوں نے ان بتوں کو قبلہ نما بنالیا۔
چناچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقالوا:ھولاءیسمعون ویبصرون ویشفعون لعبادلھم ،ویدبرون امورھم ،وینصرونھم ،فنحتوا علی اسمائھم احجارا، وجعلوھا قبلة عند توجھم الی ھولاءالخ (حجة اللہ البالغہ)
یعنی (مشرکین )کہتے ہیں کہ یہ لوگ (نیک بندے) سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں اورلوگوں کی سفارش کرتے ہیں اور ان کے کاموں کا نظم و نسق کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں ،پس انہوں نے ان بزرگوں کے ناموں پر پتھر تراشے تاکہ وہ ان اصنام کو قبلہ بنائیں ،جبکہ وہ ان بزرگوں کی طرف متوجہ ہوں ۔
لہذا یہی رنگ تیسرے مرحلہ میں جاکرکب عقیدت سے عبادت کا روپ دھار گیا۔۔۔ کسی کو پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔۔اور نہ ہی انہیں یہ احساس ہوا کہ اُن کی ایمان کی عمارتیں زمین بوس ہوچکی ہیں ۔۔۔۔اورنہ ہی یہ لوگ سمجھ سکے کہ جن نیک بندوں سے محض عقیدت رکھنے کی وجہ سے ان کے باپ دادوں نے ان نیک بندوں کی تصویریں یا بت بنائے تھے انہی بتوں کو یہ لوگ بعینہ معبود مان چکے ہیں ۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فخلف من بعد ھم خلف فلم یفطنو للفرق بین الاصنام ،وبین من ھی علی صورتہ ،فظنوھا معبودات باعیانھا الخ(حجة اللہ البالغہ)
یعنی پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو فرق نہیں سمجھ سکے مورتیوں اور ان لوگوں کے درمیان جن کی شکل پر یہ مورتیاں ہیں ،پس ان لوگوں نے ان مورتیوں ہی کو بعینہ معبود سمجھ لیا۔ “
یوں اس قوم کے باپ دادوں نے اپنا سفرنیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرنے کے سبب جو تصاویرا وربت بنا کر شروع کیا ۔۔۔۔وہ بت پرستی کی گمراہی کی صورت میں اپنے انجام تک پہنچا۔ ۔۔۔اور ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والی قوم بتوں کومعبود بنا کر اُن کی عبادت کرنا شروع ہوگئی۔
میرے بھائیوں ،بہنوں اور بزرگوں!
کسی بھی عمارت کی تعمیر کے لئے طرح طرح کے لوازمات درکار ہوتے ہیں جیسے سیمنٹ ،بجری،لوہا،دروازے ،کھڑکیاں،رنگ و روغن وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ لیکن جب اسی عمارت کی تباہی مقصود ہو تو یقینا نہ توایسے لوازمات درکار ہوتے ہیں اور نہ ہی ایسی لمبی چوڑی محنت درکار ہوتی ہے جو کہ عمارت کی تعمیر کے وقت ہوتی ہے ۔۔۔۔بلکہ عمارت کی تباہی کسی بنیاد میںصرف دراڑ پڑنے سے بھی ہوسکتی ہے۔۔۔۔ ۔جس کے بعد عمارت کے سارے لوازمات جو کہ علیحدہ علیحدہ بڑی محنت سے جمع کرکے تیار کئے گئے تھے وہ عمارت کے بنیادی ستون کے گرجانے سے ایک ساتھ ہی زمین بوس ہوجاتے ہیں ۔
آج جب کچھ لوگوں کو نیک بندوں سے عقیدت میں غلو کرتے دیکھ کر چندغلط عقائدکی نشادہی کے لئے بت پرستوں کی گمراہی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے توعموما یہ لوگ اپنے اور مشرکین کے درمیان عقائد کا فرق بیان کرتے ہوئے بت پرستوں کی عمارت کے ملبہ کا ڈھیر دکھادیتے ہیں ۔۔۔۔یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ مشرکین اپنے بتوں کو معبود سمجھتے ہیں اور اُن کی عبادت کرتے ہیں ۔۔۔جبکہ مسلمان نہ تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معبود سمجھتا ہے اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
یہ ٹھیک ہے کہ کوئی بھی مسلمان نہ تو غیر اللہ کو معبود سمجھ سکتا ہے ۔۔۔۔اور نہ ہی غیر اللہ کی عبادت کرنے کا تصور کرسکتا ہے ۔
لیکن سمجھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا مشرکین کے (گمراہی سے قبل والے)باپ دادا اُس وقت تصور میں بھی اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ان نیک بندوں کی عبادت کرنے کا یا انہیں معبود بنانے کا سوچ سکتے تھے ؟؟
یقینا جواب یہی ہوگا کہ کوئی بھی ایمان والا اللہ کے سوا کسی غیر کو نہ تو معبود بنانے کا سوچ سکتا ہے اور نہ غیر کی عبادت کرنے کا سوچ سکتا ہے ۔
لیکن دوسری جانب مشرکین کا”بتوں کو معبود سمجھنا اور اُن کی عبادت کرنا“ ہم سب کے سامنے ایک اٹل حقیقت کے طرح موجود ہے ۔
تو پھر واضح ہوجاتا ہے کہ ایمان کی روشنیوں اور شرک کے اندھیروں کے درمیان ایک راہ ایسی موجود ہے جس پر چل کرایک ایمان والی قوم گمراہی کے اندھیروں میں گم ہوسکتی ہے ۔
تو پھر آج ہم مسلمان مشرکین کی ایمان کی عمارت کے ملبہ کو دیکھ کر یہ سمجھنا چھوڑ دیں کہ عمارت کی تباہی اور بربادی اسی ملبہ کے ڈھیر کو کہتے ہیں ۔۔۔۔جبکہ ہماری ایمان کی عمارت تو بہت حسین اور مضبوط نظر آتی ہے ۔۔۔۔اورہمارے عقائد میں اور مشرکین کے عقائد میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔۔۔۔اس لئے ہمیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ؟؟؟
بلکہ ہمیں تو فکر یہ کرنی چاہیے کہ وہ کون سے راستے ہیں کہ جن پر چل کر مضبوط عمارتیں بھی ملبہ کا ڈھیربن جاتی ہیں؟؟؟
اور جب ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں گے تب ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں گے کہ فلاں قوم کی گمراہی فلاں ہے اور ہم فلاں گمراہی کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔۔۔بلکہ ہم ہرآن یہ خیال رکھیں گے کہ وہ کون سا قدم ہے جس کو اٹھانے کے بعد صراط مستقیم کھونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے ؟؟؟
۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
(ضروری گذارش: اگر کسی بھائی یادوست کو ہمارے لکھنے یا سمجھنے میں کوئی کمی کوتاہی نظر آئے تو نشادہی کی درخواست ہے تاکہ ہم اپنی اصلاح کرلیں ۔جزاک اللہ
[URL="http://www.itdunya.com/showthread.php?p=1482439&posted=1#post1482439"][SIZE="4"]Pakistan k masail or un ka yaqini or mustaqil hal
Once Must Read
Hosakta hai apko apkey masail k Hal bhi mil jaey[/SIZE][/URL]
Bookmarks