کہ میں برگ خشک ہوں دوستو مجھے ڈوبنا نہیں آئ
میری داستان الم تو سُن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مدعا نہیں آئے گا تیرا تذکرہ نہیں آئے گا
میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے کوئی قافلہ نہیں آئے گا
اگر آئے دشت میں جھیل تو مجھے احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگ خشک ہوں دوستو مجھے ڈوبنا نہیں آئے گا
میری عمر بھر کی بر ہنگی مجھے چھوڑ دے میری حال ہر
یہ جو عکس ہے میرا ہمسفر مجھے اوڑھنا نہیں آئے گا
بیدل حیدری
اِحتیاط سے پھینکو سنگ بدگُمانی کے
دوستی کے آئینے ان سے ٹُوٹ جاتے ہیں
Bookmarks