تم ابرِ گُریزاں ہو میں صحرا کی طرح ہوں
دو بُوند جو برسو گے بیکار میں برسو گے
ہے خُشک بہت مٹّی ہر سِمت بگُولے ہیں
صحرا کے بگُولوں سے اُٹھتے ہی تو شُعلے ہیں
تم کھُل کے اگر برسو صحرا میں گُلستاں ہو
پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گُریزاں ہو
جل تھل جو اگر کر دو تن من میں نمی بھر دو
ہے خُشک بہت مٹّی پوری جو کمی کر دو
پھر تم کو بتائیں گے کہ رُوح میں پِنہاں ہو
پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گُریزاں ہو
مل جاؤ اگر ہم کو ہم جشن منائیں گے
دھرتی نے نہ دیکھے ہوں وہ پھُول کھلائیں گے
آنکھوںمیں اُجالے ہوں اور دل میں چراغاں ہوں
پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گُریزاں ہو
مانا نہیں اس قابِل تم چاہو محبّت دو
ہم تم کو سدا چاہیں بس اِتنی اجازت دو
تم عِشق تمہی پُوجا اے جان میری جاں ہو
پر تم سے کہیں کیسے تم ابرِ گُریزاں ہو
Bookmarks