.کبوتر شیشے میں اپنے آپ کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
کبوتروں کودور دراز کے علاقوں سے اپنے گھر جانے کا راستہ یاد ہو تا ہے۔
کبوتر انسانوں کی نشبت با آسانی ہموار سطحوں کو تھری ڈی میں دیکھ سکتے ہیں۔
کبوتر مختلف کبوتروں میں فرق سمجھنے اور پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں
کبوتر ایک لمبے عرصے کے لئے مختلف تصاویر ذہن نشین کر سکتے ہیں۔
کبوتر پیچیدہ ریسپانسز اور ترتیبیں سیکھ سکتے ہیں۔
کبوتروں کی سُننے کی صلاحیت انسانوں سے بھی تیز ہے۔ وہ انسانوں کی نسبت کہیں درجے کم فریکئیوئنسی کی آواز سُن سکتے ہیں۔
کبوتر واحد پربدہ ہے جسے پانی نگلنے ک لئے اپنا سر نہیں اٹھانا پڑتا۔
پانچ ہزار سال قبل یونانی قوم نے کبوتروں کا استعمال پیغام رسانی کے لیے شروع کیا۔
کبوتروں کی اڑان کی برداشت ایک دن میں سو کلومیٹر کی رفتار سے پندرہ سو سے سترہ سو کلو میٹر ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران پائلٹ اپنے ساتھ کبوتر لے کر جاتے تھے کہ کہیں اگر انھوں نے اپنا جہاز پھنسا لیا)یعنی تباہ ہونے سے بچ گیا یا تباہ ہونے کے بعد وہ بچ گئے( تو کبوتر کو مدد کے لیے بطور پیغام رساں استعمال کر سکیں اور اس طرح بہت سے پائلٹس نے اپنی زندگیاں بچائیں۔
آج کے دور میں بھی کبوتر جنگی مقاص کے تحت،فرانسیسیی،سوئس،اسرائیلی،سوئیڈن اور چائنیز فوج کے استعمال میں ہیں۔
کبوتر اور فاختہ میں بہت زیادہ مشابہت پائی جاتی ہے۔
چھیس میل کی دور تک کبوتر با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔
پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا کبوتر سینکڑوں میل کی دوری سے ہواوں کا شور تک سن سکتا ہے۔
انیسویں صدی کے آغاز میں ایک کی اڑان کو بہت شہرت حاصل ہوئی تھی جسے افریقہ سے چھوڑا گیا اور وہ پچپن دن بعد برطانیہ پہنچ گیا اس کبوتر نے پچپن دنوں میں سات ہزار میل )قریبا ساڑھے گیارہ ہزار کلو میٹر( کا سفر طے کیا۔
ایک عام کبوتر کی چونچ سے دم تک اوسطاً لمبائی تیرہ انچ ہوتی ہے۔
ایک بالغ کبوتر کے قریبا دس ہزار پر ہوتے ہیں۔
کبوتروں کی اوسطاً عمر تیس سال ہوتی ہے۔
کبوتر ایک سیکنڈ میں دس مرتبہ پر ہلا سکتاہے اور اس کا دل ایک منٹ میں چھے سو بار دھڑکتا ہے۔
اسلام کے علاوہ ہندووازم،سکھ ازم اور بدھ مت میں بھی کبوتروں کو دانہ ڈالنا ثواب سمجھا جاتا ہے۔
جب کھانا کھانے کی باری آئے اور اگر وہاں بہت سے کبوتر ہیں تو نر یا مادہ کبوتر جو بھی بچہ ملے اسے کھانا کھلا دیتے ہیں چاہے وہ ان کا اپنا بچہ ہو یا نہ ہو۔
آج تک کا سب سے مہنگا کبوتر دو لاکھ پچیس ہزار ڈالرز میں فروخت ہوا ہے۔
پوری دنیا میں لاکھوں ڈالرز کے جوئے کے ساتھ کبوتروں کی پانچ بڑی ریس ہوتی ہیں۔
جنگ عظیم اول کے دوران ایک چر آمی)پیارا دوست( نامی کبوتر نے دشمن کی حدود پار کرتے ہوئے ایک پیغام پہنچا کر کئی فرانسیسی فوجیوں کی جان بچائی۔ اس کبوتر کو سینے میں اور ٹانگ پہ گولی لگی اور اس ٹانگ میں گولی جس ٹانگ کے ساتھ پیغام بندھا ہوا تھا، اس ٹانگ سے بہت زیادہ گوشت اتر گیا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے رہریلی گیسوں سے بچتے ہوئے پچیس منٹ تک پرواز جاری رکھی اور پیغام پہنچا دیا۔ اس کبوتر کو امتیازی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
**************
Bookmarks