آپ نے ٹیلی پیتھی کے بارے میں سنا ہو گا جس میں کوئی شخص مہارت حاصل کر کے دوسروں کے دماغ پڑھنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن یہ افسانہ اب حقیقت کا روپ دھارنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
جاپانی سائنس دانوں نے ایک نیا آلہ بنایا ہے جو دماغ کے اندر کی تصاویر کو کمپیوٹر کی سکرین پر دکھا سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ عرصے بعد اس ٹیکنالوجی کی مدد سے لوگوں کے خوابوں کو بھی دیکھا جا سکے گا اور بعد ازاں ان کے خیالات بھی پڑھے جا سکیں گے۔
جاپانی تحقیق کاروں نے ایف ایم آئی آرمشین کی مدد سے لوگوں کے دماغ کے ایک مخصوص حصے میں خون کے دباؤ میں کمی بیشی کو ناپا جو مختلف تصاویر دیکھ رہے تھے۔ دماغ کایہ حصہ تصاویر کا مشاہد کرنے کا کام کرتا ہے۔
تجربے میں حصہ لینے والوں کو 12، 12 سیکنڈ تک چار سو سیاہ و سفید تصاویر دکھائی گئیں، جس کے دوران مشین ان کے ذہن کے مخصوص بصری حصے میں خون کے دباؤ کا جائزہ لیتی رہی۔ اسی دوران ایک کمپیوٹر تمام ڈیٹا اخذ کر کے یہ جاننے کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ کون سی تصویریں دیکھنے کے دماغ میں کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جب ان افراد کو بالکل مختلف تصاویر دکھائی گئیں، تو کمپیوٹر صرف دماغی صورتِ حال کا معالعہ کرنے کے بعدیہ بتانے میں کامیاب ہو گیا کہ یہ افراد کون سی تصاویر دیکھ رہے تھے۔
اگرچہ فی الحال تو یہ سسٹم صرف بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کے بارے میں بتا سکتا ہے، لیکن خیال ہے کہ پیمائش کے طریقوں میں بہتری لا کر رنگین تصاویر کے بارے میں معلوم کیا جا سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی کو ڈیزائن اور فنونِ لطیفہ کے شعبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کی مدد سے یہ دیکھا جا سکے گا کہ کسی فن کار کے ذہن میں مجوزہ تصویر کس شکل میں موجود ہے اور کینوس پر ڈھل جانے کے بعد اس میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے طبی استعمالات بھی ممکن ہیں اور اسے ایسے مریضوں کے علاج میں استعمال کیا جا سکتا ہے جنھیں ڈراؤنی شکلیں یا خواب نظر آتے ہیں۔
تحقیق کے سربراہ یوکییاسو کامی تانی کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کو بصارت کے علاوہ دوسری حسوں پر تحقیق کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے، اور یہ جذبات اور پیچیدہ حسیات پڑھنے کے قابل بھی ہو سکتی ہے۔
ایک اور سائنس دان ڈاکٹر کانگ چینگ کہتے ہیں کہ یہ نتائج دماغ کی کارکردگی کو سمجھنے کے سلسلے میں بہت اہم پیش رفت ہیں۔ انھوں نے پیش گوئی کی ہے کہ دس سال کے اندر اندر ذہن پڑھنے کی صلاحیت پیدا کر لی جائے گی۔
اور اگر ایسی کوئی مشین بن گئی تو ہمارا اندازہ ہے کہ اس مشین کی سب سے بڑی گاہک شکی بیویاں ہوں
Bookmarks