انسان کے دماغ میںبڑھنے اور پھلنے پھولنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، اس لئے کتب کا مطالعہ ور غور و فکر کرنے سے زہنی ارتقاء کا سلسلہ رکتا نہیں ، چلتا جاتا ہے۔ یہاں تک فلسفیانہ گفتگو کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
اس سارے سفر میں عمل کو ساتھ لیکر چلنا نہایت ضروری ہے کیونکہ دائرہ معلوم اگر قوت عمل سے زیادہ ہوجائے تو نتیجے میں انسان اپاہج ہوجاتا ہے یا پھر اس کی مثال اس گدھے کی سی ہوجاتی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے لمبی چوری باتیں بنانا تو جانتا ہے مگر عملی اعتبار سے صفر ہی رہے۔