-
11th August 2015, 12:07 PM
#1
نظم"صبح آزادی"
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں، جس کہ آرزو لے کر
چلے تھے کہ یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہوگا شب ست موج کا ساحل
کہیں تو رکے گا سفینہ غم کا دل
جواں لہو کی پر اسرار شاہراہوں سے
چلے یار تو دامن پر کتنے ہاتھ پڑے
دیار حسن کی بے صبر خواب گاہوں سے
پکارتی رہیں باہیں، دن لاتے رہے
بہت عزیز تھی لیکن سحر کی لگن
بہت قریں تھا لیکن حسینان نور کا دامن
سبک سبک تھی تمنا، دبی دبی تھکن
سنا ہو بھی چکا ہے فراق ظلمت و نور
سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصال منزل و گام
دل چکا ہے بہت اہل درد کا سوتر
نشاط وصل حلال و عذاب ہجر حرام
جگر کہ آگ، نظر کی امنگ، دل کی جلن
کسی پہ چارہ ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں
کہاں سے آئ نگار صبا، کدھر کو گئ
ابھی چراغ سر رہ کو کچھ خبر ہی نہیں
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
…فیض احمد فیض…
-
11th August 2015, 04:22 PM
#2
-
11th August 2015, 09:03 PM
#3
-
11th August 2015, 09:20 PM
#4
-
12th August 2015, 06:56 AM
#5
Posting Permissions
- You may not post new threads
- You may not post replies
- You may not post attachments
- You may not edit your posts
-
Forum Rules
Bookmarks