دھمکی کا سن کر حیرت ہوئی: بش
امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پاکستان پر حملہ کی دھمکی نہیں دی تھی۔
وائٹ ہاؤس میں صدر جنرل مشرف کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا جہاں تک انہیں یاد ہے امریکہ نے پاکستان پر حملہ کی کوئی دھمکی نہیں دی تھی۔
امریکی صدر نے کہا کہ انہیں اس وقت کے وزیر خارجہ کولن پاؤل نے بتایا تھا کہ پاکستان پہلا ملک ہے جس نے رضا کارانہ طور پر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کی پیشکش کی ہے۔
صدر بش نے کہا کہ وہ پاکستان پر امریکی حملے کی دھمکی کا سن کر حیران رہ گئے۔’میں نے یہ بات آج ہی اخبار میں پڑھی ہے۔ میں اس بیان میں استعمال کی گئی زبان پر حیران رہ گیا‘۔
صدر مشرف نے اس موقع پر کہا کہ ان کی کتاب شائع ہونے والی ہے اور اس موقع پر مزید نہیں کہنا چاہیں گے۔
امریکی صدر جارج بش نے پاکستان کے فوجی حکمران کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف انہوں نے بہت اہم کردار ادا کیا اور دہشت گردوں کے نشانہ میں آ گئے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ جنرل مشرف نے آزادانہ اور شفاف انتخابات کرانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
----------NEXT PART----------
’امریکہ نےحملے کی دھمکی دی‘
صدر مشرف نے کہا ہے کہ گیارہ ستمبر کے حلموں کے بعد امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ نہ دیا تو امریکہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ صدر مشرف نے یہ انکشاف امریکی ٹی وی سی بی ایس کے پروگرام ’سکسٹی منٹس‘ میں کیا ہے۔
سی بی ایس کے اسٹیو کرافٹ کو دیئے گئے اس انٹرویو میں صدر مشرف نے کہا کہ امریکی دھمکی تب کے نائب سیکریٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے ان کے انٹیلیجنس ڈاریکٹر کے توسط سے ان تک پنہچائی۔: ’انٹیلیجس ڈائریکٹر نے مجھے کہا کہ (آرمیٹیج) کہہ رہے ہیں ہے کہ بمباری کے لیئے تیار ہوجائیں۔ واپس پتھر کے دور (اسٹون ایج) میں جانے کے لیئے تیار ہوجائیں‘۔
پتھر کے دور میں بھیج دیں گے
’انٹیلیجس ڈائریکٹر نے مجھے کہا کہ (آرمیٹیج) کہہ رہے ہیں ہے کہ بمباری کے لیئے تیار ہوجائیں۔ واپس پتھر کے دور (اسٹون ایج) میں جانے کے لیئے تیار ہوجائیں‘
صدر مشرف
جنرل مشرف نے کہا کہ اس سے انہیں تذلیل محسوس ہوئی۔ ’میرے خیال میں یہ جملہ بہت نامناسب تھا‘۔
سابق امریکی نائب سیکریٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ نے پاکستان کو سخت نوعیت کا پیغام ضرور دیا تھا۔ لیکن رچرڈ آرمیٹیج نے کہا ہے کہ جس قسم کی زبان کے استعمال کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ درست نہیں۔
صدر بش پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑا حلیف کہتے ہیں
لیکن انٹرویو میں جنرل مشرف کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کے ردِ عمل میں ذمہ داری سے کام لیا۔ ایسی صورتحال میں ’آ پ کو سوچ سمجھ کر اپنے ملک کے مفاد میں اقدامات کرنے ہوتے ہیں، اور میں نے یہی کیا‘۔
امریکہ میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد مشرف حکومت نے یہ کہہ کر امریکہ کا ساتھ دیا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ کسی دباؤ کے تحت نہیں بلکہ ملک کے اپنے مفاد میں کیا ہے۔ یہ شاید پہلی بار ہے کہ جنرل مشرف کھل کر اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ انہوں نہ جو کچھ کیا سخت امریکی دباؤ کے تحت کیا۔
انٹرویو میں جنرل مشرف نے کھل کر بتایا ہے کہ امریکہ نے کس طرح پاکستان پر دہشتگردی کے خلاف مہم میں تعاون کے لیئے دباؤ ڈالا۔ ان کے مطابق امریکہ نے ان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدی چیک پوسٹیں اور فوجی اڈے ان کے حوالے کر دے، جو کہ انہوں نے نہیں کیا۔
آرمیٹیج نے کہا ہے کہ ان کا پیغام سخت لہجے میں تھا لیکن زبان مختلف تھی
جنرل مشرف نے کہا کہ ایک مرحلے پر امریکہ نے ان سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان کے اندر ان مظاہروں کو کچلیں جن میں امریکہ کے خلاف حملوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ جنرل مشرف نے کہا کہ وہ اس سے متفق نہیں تھے: ’اگر کوئی اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے، ہم اسے کس طرح دبا سکتے ہیں‘۔
صدر مشرف کا یہ انٹرویو اتوار چوبیس ستمبر کو نشر ہو گا۔
امریکی صدر جارج بش نے کہا ہے کہ گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد پاکستان پر حملہ کی دھمکی نہیں دی تھی۔
صدر بش اور صدر مشرف کی پریس کانفرنس کا ویڈیو
COURTESY BY BBC
Bookmarks