ذخیرہ اندوزی
ذخیرہ اندوزی کو اسلام میں احتکار کیا جاتا ہے اس کا لفظی مطلب ظلم ہے لیکن شرعی اصطلاح میں ذخیرہ اندوزی یہ ہے کہ کسی استعمال ہونے والی چیز کی فروخت کو اس غرض سے روک لیا جائے کہ وہ مہنگی ہو جائے اور جب اس کی قلت پیدا ہو جائے تو منہ مانگے داموں فروخت کی جائے ۔
شریعت اسلامی میں یہ جائز نہیں ہے ۔ بلکہ ایسا کرنا حرام اور جرم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذخیرہ اندازی سے منع فرمایا اور اس سے حاصل ہونے والا منافع نا جائز ہے۔
ابن ماجہ میں حدیث پاک ہے ( والمحتکر ملعون ) احتکار کرنے والا ملوان ہے
حدیث:
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کی جو شخص چالیس دن غلے کا ذخیرہ کرتا ہے اور اس کے مہنگا ہونے کا انتظار کرتا ہے ۔ وہ شخص حق اللہ تعالٰی سے دور اور اللہ اس سے بیزار ہوا (اللہ میری توبہ ۔ ازعالم فقری صفحہ 86
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اقوال سے یہ عیاں ہے کہ اسلام میں ذخیرہ اندوزی حرام ہے
بعض لوگ کھانے پینے کی اشیاء مثلا گندم، چاول ، چینی ،آٹا ، دالیں وغیرہ خرید کر سٹاک ک لیتے ہیں تاکہ بازار مین ان اشیاء کی قلت پیدا ہو جائے پھر ان اشیاء کے مہنگا ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ اس طرح وہ اپنے ذاتی لالچ کے حصول کے لیے لاکھوں غریب مسلمانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اور لوگ اشیاء کی قلت سے پریشان ہو کر مہنگے داموں چیزیں خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اسی وجہ عے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے
(اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام بری عادات سے محفوظ رکھے ۔ ( آمین
Bookmarks