مکرمی
ان دونوں ہمارے ملک میں اخلاقی بے راہ روی بڑی عام ہوگئی ہے ؛مجھے روزانہ بس سے سفر کرنا پڑتاہے مگر جس بس اڈے پر دیکھو آوارہ لڑکوں بلکہ بعض اوقات بس اسٹاف کے تمام ہی مردوں کی نظریں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو گھورتی رہتی ہیں ؛۔لوگوں کو ذرا بھی حجاب محسوس نہیں ہوتا کہ وہ جن لڑکیوں کو اپنی نگاہوں کا نشانہ بناتے ہیں ان پر کیا گزرتی ہوگی پھر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر ان کی ماؤں بہنوں کو کوئی غیر مرد اس طرح گھورے جس طرح یہ گھورتے ہیں توان کا کیا حال ہو?۔
میں سمجھتی ہوں کہ چند ترقی پسند گھرانوں کو چھوڑ کر شائدہی کوئی ایسا پاکستانی ہوگا جو اپنے گھر کی خواتین کے بارےمیں غیور نہ واقع ہوا ہو مگر یہی لوگ جب دوسروں کی خواتین کو تاڑتے ہیں تو معلوم نہیں ان کی غیرت کہاں جا کر سوجاتی ہے ؛
اگر کوئی بس اسٹاپ بدقسمتی سے کسی مردانہ کالج کے قریب ہوتو پھر حالت اور بھی ناقابل بیان ہوجاتی ہے مثال کے طور پہ ویال سنگھ کالج کے قریب جو بس اسٹاپ ہے وہاں بہت سی طالبات کو بسوں میں سوار ہو کر مختلف جگہوں پر جانا پڑتا ہے بلکہ اس کے بیسیوں بھائی بس اسٹاپ رُخصت کرنے کے لیئے آتے ہیں ؛میں اس خط میں صرف اپنے احساسات نہیں درج کررہی ہوں بلکہ مجھے جتنی طالبات اور دوسری خواتین سے اس مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا ہے میں نے سب کو اپنا ہم خیال اور ہم زبان پایا ہے ؛
میں نے قانون سے تو کیا اس سلسلے میں گذارش کرسکتی ہوں کہ اس کی موجودگی میں سب کچھ ہوتاہے البتہ اپنے بھائیوں سے درخواست کروں گی کہ وہ ہم لوگوں کا کچھ تو خیال کریں ؛۔
(ایک طالبہ لاہور)۔
ہمارے دوست شاہد عزیز (ایڈیٹر )کے خیالات
یہ کہانی صرف ایک طالبہ کی نہیں بلکہ ہر ماں، بہن اور بیٹی کی کہانی ہے۔ آج کل ہمارے معاشرے میں ہر ماں، بہن، بیٹی کو اس طرح کے حالات دیکھنے پڑتے ہیں۔ نوجوان نسل کی بہتر تعلیم و تربیت میں جہاں ماں باپ کی تربیت کا شفقت بھرا ہاتھ ہوتا ہے وہاں قابل اساتذہ، بہتر تعلیمی و دینی اداروں کا کردار بھی اپنی جگہ موجود ہے لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نوجوان نسل کی بے راہ روی میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کردار بھی موجود ہے۔ الیکٹرانک میڈیا میں کیبل نیٹ ورک پر چلنے والے ملکی اور غیر ملکی تفریحی چینل ہماری نوجوان نسل کا اخلاق و کردار تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ ان ملکی اور غیر ملکی چینلز پر چلنے والے ڈرامے، فلمیں اور دیگر پروگرامز کسی طرح بھی ایک اسلامی و دینی معاشرہ کیلئے فائدہ مند نہیں ہیںے
دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کل کی فلموں اور ڈراموں میں سبق آموز کہانی اور نصیحت آمیز بات نام کی چیز سرے سے ہی موجود نہیں ہوتی۔ لڑائی، مارکٹائی، انتقام، عشقیہ پیار و محبت اِن ڈراموں اور فلموں کا ایک خاص جزو بن گیا ہے۔ ایسے چلنے والے ڈرامے فلمیں ہماری نوجوان نسل کا اخلاق و کردار تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں اگر کسی ملک اور قوم کو زندگی کے کسی بھی محاذ پر شکست دینی ہو تو اس قوم کی نوجوان نسل کے اخلاق وکردار کو ثقافتی یلغار کے ذریعہ تباہ برباد کردیا جائے شکست خود بخود اس قوم کا مقدر بن جائے گی۔ ہماری نوجوان نسل کو تباہ وبرباد کرنے کیلئے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ کیبل نیٹ ورک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ ایک گھناﺅنا کردار ادا کر رہے ہیں جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان نسل کی بہتر تعلیم وتربیت اور رہنمائی کیلئے الیکٹرانک میڈیا ریڈیو‘ ٹی وی‘ پرائیویٹ ٹی وی چینلز‘ پرنٹ میڈیا‘ رسائل‘ جرائد اور اخبارات موثر اور جامع کردار ادا کر سکتے ہیں اور یہ کوئی اتنا زیادہ مشکل کام بھی نہیں ہے بس تھوڑی سی توجہ لگن اور محنت کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
Bookmarks