ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئیہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئیخودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تيغ، فساں لا الہ الا اللہ ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوںواعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دےلب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میرییہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میرییا رب دِل مسلم کو وہ زندہ تمنا دےجو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دےستاروں سے آگے جہاں اور بھي ہيںابھي عشق کے امتحاں اور بھي ہيںر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانا وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہاناانوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیںوہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کراور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآں ہو کرعقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میںنظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میںآنکھ جو کچھ دیکھتى ہے , لب پہ آسکتا نہیں محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گىانداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہےشاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری باتتقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سےہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجاتمانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میںتو میرا شوق دیکھ ، مرا انتظار دیکھدل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہےپر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہےتُو نے یہ کیا غضب کیا، مجھ کو بھی فاش کر دیامیں ہی تو ایک راز تھا، سینۂ کائنات میںخودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہےمٹا ديا مرے ساقی نے عالم من و توپلا کے مجھ کو مے لا الہ الا ھو'ہزار خوف ہو ليکن زباں ہو دل کی رفيقيہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طريقعقل گو آستاں سے دور نہيںاس کی تقدير ميں حضور نہيںنگاہ فقر ميں شان سکندری کيا ہےخراج کی جو گدا ہو ، وہ قيصری کيا ہےکی حق سے فرشتوں نے اقبال کی غمازیگستاخ ہے ، کرتا ہے فطرت کی حنا بندیخاکی ہے مگر اس کے انداز ہيں افلاکیرومی ہے نہ شامی ہے ، کاشی نہ سمرقندیسکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اس نےآدم کو سکھاتا ہے آداب خداوندیکريں گے اہل نظر تازہ بستياں آبادمری نگاہ نہيں سوئے کوفہ و بغدادلا پھر اک بار وہی بادہ و جام اے ساقیہاتھ آ جائے مجھے ميرا مقام اے ساقییہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مؤمنقاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا الله کھول آنکھ ، زمیں دیکھ ، فلک دیکھ ، فضا دیکھ مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھمجنوں نے شہر چھوڑا تو صحرا بھی چھوڑ دے نظارے کی ہوس ہو تو لیلی بھی چھوڑ دے دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہوآئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے ، بھولے بھالے ہیں