Results 1 to 4 of 4

Thread: آگ ہی آگ ایک دلچسپ کہانی

  1. #1
    Yaseen Ahmad is offline Member
    Last Online
    18th January 2024 @ 05:00 PM
    Join Date
    30 Nov 2013
    Location
    Janat
    Age
    30
    Gender
    Male
    Posts
    3,565
    Threads
    288
    Thanked
    698

    Thumbs up آگ ہی آگ ایک دلچسپ کہانی

    السلام وعلیکم ورحمتﷲ وبرکاتہ

    پیارے ممبرز۔۔۔ایک دلچسپ کہانی پڑھیئے اور اپنی آرا سے نوازیں۔۔

    •••••آگ ہی آگ•••••



    _ _ _ _ _ _ قسط نمبر ایک_ _ _ _ _ _ _
    عمارت میں سات آدمی موجود تھے ان ساتوں کے چہروں پر موت کا کوف طاری تھا یوں لگتا تھا جیسے موت کے خوف نے ان کا سارا خون نچوڑ لیا ہو رنگ بالکل سفید نظر آہے تھے ۔ آنکھوں میں ویرانیاں ہی ویرانیاں تھیں ۔ بولتے بھی تو یوں لگتا جیسے دور کسی اندھے کنویں سے ان کی آواز آرہی ہو۔
    عمارت میں کوئی چیز گر پڑتی تو انہیں یوں لگتا جیسے کوئی خنجر ان کی طرف کھینچ مارا گیا ہو وہ بھڑک اٹھتے ان کی چیخیں نکل جاتیں عمارت کا نام تھا خان ولا ۔ عمارت کے مالک کا نام خان بدیع خان تھا وہ ان سات میں سے ایک تھا عمارت میں کوئی بچہ یا عورت نہیں تھی یہ عمارت انہوں نے آپس میں جمو ہو کر کھانے پینے دوستی کی یادیں تازہ کرنے کے لیے چن رکھی تھی۔وہ ہر سال دسمبر کی چھے تاریخ کو یہاں جمع ہوتے تھے پورا ایک ہفتہ یہاں گزارتے تھے خوب کھاتے تھے پیتے تھے گپیں ہانکتے تھے کھیلتے تھے کودتے تھے۔
    یہ عمارت صرف ایک عمارت نہیں تھی پوری ایک تفریح گاہ تھی اس کے ارد گرد لمبی چوڑی سبزہ گاہ تھی اس سبزہ گاہ میں دنیا بھر سے لا کر پودے لگائے گئے تھے سیکڑوں قسم کے پھول اپنی بہار دکھاتے تھے۔ موسم کوئی بھی و پھول ضرور کھلا کرتے تھے۔ دسمبر میں بھی یہاں موسم بہار نظر آتا تھا۔
    ہر سال ساتوں دوست چھے دسمبر کی شام تک یہاں پہنچ جاتے تھے وہ بہت گرم جوشی سے ایک دوسرے سے ملتے اپنے گھر بار کی خیریت بال بچوں کی خبریں ایک دوسرے کو سناتے اور سات دن اس طرح گزر جاتے کہ ان کا پتا بھی نہ چلتا کب گزر گئے سات دن بعد جب وہ رخصت ہوتے تو اگلے سال کی چھے تاریخ کو ملنے کا وعدہ کر کے
    لیکن اس بار ان کے چہروں پر کوئی خوشی نہیں تھی آج ابھی چھے تاریخ تھی کل سے ان کے پروگرام شروع ہونے والے تھے لیکن ان حالات میں کیا خاک پروگرام ہوتے اس وقت بھی وہ عمارت کے ہال میں بچھی گول میز کے گرد بیٹھے چائے پی رہے تھے عمارت کے تین ملازم غلاموں کی طرح ساکت کھڑے تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ کب چائے ختم ہو اور وہ برتن اٹھا کر ہال سے باہر نکل جائیں ۔
    تھوڑی دیر پہلے جب خان بدیع خان نے آکر عمارت کا تالا اپنے ملازموں کےذریعے کھلوایا تھا تو سامنے ہی دیوار پر انہیں ایک پوسٹر لگا نظر آیا تھا پوسٹر ہاتھ سے لکھا گیا تھا اور وہ بھی سرخ روشنائی سے وہ اس پوسٹر کی تحریر پڑھ کر چونک اٹھے ۔ ان کے قدم رک گئے وہ اندر کی طرف بڑھ نہ سک ملازمیں کو بھی وہ اپنی شہری رہائشگاہ سے ساتھ لائے تھے تالا اپنی آنکھوں کے سامنے کھلوایا تھا اس لیے اس پوسٹر کے بارے میں ملازمین سے تو پوچھ بھی نہیں سکتے تھے۔
    ان کے پیچھے ملازم بھی رک گئے وہ بھی ان پڑھ تو نہیں تھے کہ پوسٹر کے الفاظ نہ پڑھ سکیں اس پر بھدے الفاظ میں یہ تحریر نظر آرہی تھی ۔
    اس بار یہاں خون کی ہولی کھیلی جائے گی تم سات میں سے چھے کو قتل کر دیا جائے گا ۔ خوب جان لو سات میں سے چھے کو ۔
    نیچے کسی کا نام نہیں تھا۔ سرخ الفاظ سے خون ٹپکتا محسوس ہو رہا تھا ان کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی ۔
    انہوں نے فورا گھوم کر اپنے ملازمین کی طرف دیکھا۔
    یہ ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے ؟
    کک ۔۔ کون سی بدتمیزی سر ؟ ایک نے کانپ کر کہا ۔
    یہ پوسٹر
    ہم تو آپ کے ساتھ آئے ہیں سر عمارت کی چابی سارا سال آپ کے سیف میں رہتی ہے سر ہمیں کیا معلوم یہ کس کی شرارت ہے ۔۔ دوسرا بولا۔
    شرارت ۔۔ تم اس کو شرارت کہہ رہے ہو ۔۔ وہ گرجے ۔۔
    اور کیا کہیں سر ۔۔ یہ شرارت نہیں تو کیا ہے ۔۔ آخر کسی کو کیا پڑی ہے کہ آپ میں سے چھے کو قتل کردے ۔۔
    اسے پڑی ہے ۔۔ تبھی لکھا ہے نا ۔۔ ارے بھئی ۔ وہ ساتویں کو بطور قاتل پھنسوانا چاہتا ہے ۔۔ جب کہ وہ ہے کوئی اور۔
    اوہ تینوں ملازموں نے ایک ساتھ کہا اب ان پر بھی سکتہ طاری تھا۔ خیر باقی دوست آلیں ۔۔ پھر مشورہ ہو گا۔ ۔
    ایک ایک کر کے تمام دوست آ گئے ان سب نے یہ تحریر پڑھ لی نہ جانے کیوں کوئی بھی اس تحریر کو مذاق سمجھنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔۔ نہیں خان بدیع یہ مذاق نہیں ہو سکتا ان کے ایک دوست ڈابر شاہ نے کہا
    بالکل آ ج سے پہلے یہاں ہم سے کبھی کسی نے کوئی مذاق کیا ہے دوسرے دوست شاکان جاہ نے کہا ۔۔
    مذاق ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سوال تو یہ ہے کہ پوسٹر لگانے والا اندر کس طرح داخل ہوا؟آج یہاں آنے سے پہلے جب آپ نے تجوری میں سے چابی نکالی تو یہ اپنی جگہ پر تھی ؟ تیسرے دوست شوبی تارا نے کہا ۔۔ بالکل اپنی جگہ پر تھی ۔۔ اور تجوری کی چابی صرف اور صرف آپ کے پاس رہتی ہے ؟ چوتھے دوست طاوس جان نے کہا ۔۔ بالکل ویسے تو کسی ضرورت کے تحت گھر کے افراد کو بھی دے دی جاتی ہے اس چابی کی ویسے خاص حفاظت کی ضرورت بھی نہیں ہے اس عمارت میں کوئی ایسی قیمتی چیزیں تو ہوتی نہیں ہیں ۔۔
    ہو سکتا ہے ۔۔ کسی نے عمارت پر قبضہ کرنے کے لیے یہ پوسٹر لگادیا ہو ۔ تاکہ ہم خوف زدہ ہو کر یہاں سے چلے جائیں پانچواں دوست جالوت شاہی بولا ۔۔
    اگر کوئی یہاں خفیہ طور پر سارا سال رہنے کے چکر
    ہماری زندگی بھی کیا زندگی ہے ۔ جب دیکھو ۔ دوڑ دھوپ ہو رہی ہے ۔ فرزانہ نے سرد آہ بھر کر کہا ۔
    وہ دیکھو ۔ ہمارے سروں پر سیا ہ بادل آ گیا ۔ دھوپ یہاں سے ہٹ گئی ۔ اب ہماری زندگی دوڑ دھوپ نہیں دوڑ بادل بن گئی ہے ۔ فاروق مسکرایا ۔ دماغ چل گیا ہے شاید ۔ محمود نے اسے گھورا ۔ یہ تمہارا خیال ہے جو کہ سند نہیں فاروق بولا ۔ میرا خیال ہے بہت جلد ہم کہیں الجھنے والے ہیں ۔ فرزانہ نے کہا ۔ فضول خیال ہے ۔ الجھ کر ہی تو آ رہے ہیں اب اور کیا الجھیں گے ۔ کتنے دن ہو گئے ہمیں گھر سے نکلے ہوئے ۔ اب فارغ ہوئے ہیں تو تم کہ رہی ہو کہ ہم الجھنے والے ہیں کم از کم ایک بار گھر تو چلے جائیں اس کے بعد الجھ جائیں گے ۔
    اگر تقدیر نے گھر جانے کا وقت دیا تبھی جائینگ ے نا وہ دیکھو ایک عمارت نظر آہی ہے ۔ ہم کچھ دیر یہاں آرام کر کے آگے بڑھیں گے ۔ میں تو گاڑی چلا چلا کر بری طرح تھک گیا ہوں ۔ محمود نے جلدی جلدی کہا ۔
    ابا جان ۔ انکل خان رحمان اور پروفیسر انکل بھی ہمارے ساتھ آ جاتے تو کتنا اچھا تھا لیکن ابا جان نے ہمیں پہلے بھیج دیا ہے کوئی تک فاروق نے جل بھن کر کہا ۔
    کوئی تک ہے تبھی تو انہوں نے ہمیں پہلے بھیج دیا ہے اگر تک نہ ہوتی تو وہ کیوں بھیجتے ۔
    عمارت بہت خوبصورت لگتی ہے چاروں طرف سبزہ زار بھی ہے میں تو کہتا ہوں یہیں رک کر ابا جان اور انکلز کا انتظار کر لیتے ہیں فاروق نے کہا ۔ ہرگز نہیں ابا جان کا حکم ہے کہ ہم فورا گھ پہنچیں گھر پہنچنے سے پہلے ہم کہیں رکنا پسند نہیں کریں گے ۔ یہ ان کے حکم کی خلاف ورزی ہو گی ۔ عین اسی وقت ٹائر پھٹنے کی آواز گونجی ۔ ساتھ ہی فاروق نے قہقہہ لگایا ۔ اب بھی رکو گے یا نہیں ۔
    ہرگز نہیں ٹائر تبدیل کر کے آگے بڑھ جائیں گے۔ اب شاید تمہارا دماغ چل گیا ہے ۔ فاروق نے منہ بنایا ۔ فاروق ٹھیک کہ رہا ہے محمود ۔
    کیا ٹھیک کہہ رہا ہے ؟
    یہ کہ تمہارا دماغ چل گیا ہے ۔ فرزانہ مسکرائی
    پاگل ہو گئی ہو کیا بھلا میرا دماغ کیوں چلنے لگا دماغ کی بھی ایک ہی کہی ۔ چلنے کو اس دنیا میں کیا نہیں چل سکتا ۔ فاروق بولا۔ ہاں یاد آیا ۔ ایک ٹائر تو پہلے ہی پنکچر ہو چکا ہے ارے باپ رے ۔ خیر ہم اس عمارت والوں سے مدد مانگ لیتے ہیں شاید یہاں سے کوئی ٹائر مل جائے اس صورت میں بھی ہمیں رکنا تو پڑے گیا نا ۔ اسے رکنا نہیں کہتے محمود نے فورا کہا ۔ بھئی تم شوق سے اسے رکنا نہ کہو میں کہ لیتا ہوں ۔ رکنا ۔ بلکہ ٹھہرنا ۔ قیام کرنا ۔ فاروق نے آنکھیں نکالیں ۔
    بس بس اتنی باہر نہ نکالو یہ آنکھیں کہیں بالکل ہی باہر آ کر گالوں پر نہ اٹک جائیں فرزانہ گھبرا گئی۔ پھر ان کو گالوں پر اٹکنے کی کیا ضرورت رہ جائے گی فاروق نے منہ بنایا ۔ اچھا آو ۔ ٹائر کا پتا کریں ۔ محمود بولا ۔ ٹائر کی بجائے کہیں ہمیں کسی اور چیز کا پتا نہ چل جائے ۔ فاروق نے کہا ۔ میں نے ٹائر کا پتا کرنے کی بات کی ہے ۔ پتا چلنے کی نہیں ۔ حد ہو گئی ۔ تم دونوں تو بس ایک دوسرے سے لڑنے پر تلے رہتے ہو کوئی موقع تو خالی جانے دیا کرو ۔ تمہیں خالی موقعوں کی آخر ایسی کیا ضرورت ہے ۔ فاروق نے حیران ہو کر کہا اور فرزانہ اسے گھور کر رہ گئی ۔ مم ۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے ۔ کس سے ۔ فرزانہ کی آنکھوں سے ؟
    نن ۔ نہیں اس عمارت سے فاروق نے واقعی خوف زدہ ہو کر کہا ۔ لو ۔ اب یہ حضرت عمارتوں سے بھی ڈرنے لگے ۔
    عمارتیں ہی تو ہوتی ہیں جن سے ڈرا جاتا ہے ۔ تم نے نہیں سنا ۔ بھوت بنگلہ ، چڑیل محل ، جنوں کا گھر ۔ یہ تو شاید جھوٹے بچوں کی کہانیوں کی کتابوں کے نام ہیں ۔جو فضول قسم کے لکھنے والے لکھتے رہتے ہیں
    میرا خیال ہے ۔ ہم باتوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ ہمیں فورا اس عمارت میں پہنچنا چاہیے ۔ اگر ٹائر مل گیا تو مزا آ جائے گا ۔ فرزانہ نے کہا ۔
    نہیں ملا تو زیادہ مزا آئے گا ۔ فاروق مسکرا کر بولا ۔ لیکن ہم مزے کے پیچھے کیوں پڑیں ۔ ہمیں تو بس گھر جانا ہے ۔ آو ۔
    تینوں تیزی سے اس عمارت کی طرف قدم اٹھانے لگے اس کے گرد یہ خوب صورب باغ دیکھ کر میرا جی بے تحاشہ چاہنے لگا ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے یہاں رک جائیں فرزانہ بولی ۔
    لیکن ابا جان کے حکم کا کیا کریں ۔ محمود نے کہا ۔ انہوں نے خاص طور پر تو ہم سے یہ کہا نہیں کہ سیدھے گھر جائیں ۔ راستے میں کہیں نہ رکیں ۔ میں پھر بھی اسے مناسب نہیں سمجھتا ۔ ہو سکتا ہے ۔ شہر میں ہماری شدید ضرورت ہو اور ہم یہاں رک کر رہ جائیں ۔ پھر ابا جان ضرور ہم پر بگڑیں گے ۔
    اچھا بابا ۔ اللہ کرے ٹائر مل جائے پھر ہم سیدھے گھر ہی جائیں گے ۔ بلکہ اگر تم کہو تو ہم ناک کی سیدھ میں چلے جائیں گے ۔ بس خاموش ۔ ہم عمارت کے نزدیک پہنچنے والے ہیں ۔ لیکن اس عمارت کے نزدیک باتیں کرنا منع تو نہیں ہے ۔ دھت تیرے کی محمود نے جھلا کر اپنی ران پر ہاتھ مارا لیکن اس کا ہاتھ فرزانہ کی کہنی پر لگا۔ تم تو کہنی اور ران میں پہچان بھی بھول گئے فرزانہ نے تلملا کر کہا ۔ اوہ معاف کرنا

    (جاری ہے)

  2. #2
    mataullah is offline Senior Member+
    Last Online
    1st October 2023 @ 11:26 PM
    Join Date
    22 Apr 2011
    Age
    33
    Gender
    Male
    Posts
    323
    Threads
    12
    Credits
    -962
    Thanked
    12

    Default

    nyce

  3. #3
    Ibrahem is offline Senior Member+
    Last Online
    15th May 2017 @ 09:19 AM
    Join Date
    04 Dec 2014
    Age
    26
    Gender
    Male
    Posts
    1,841
    Threads
    113
    Credits
    1,259
    Thanked
    59

    Default

    wa bhai wap
    AAPKO SHIKAYAT KA MUQA DUBARA NAHE MILIGA..

  4. #4
    WaQaR DK's Avatar
    WaQaR DK is offline Advance Member
    Last Online
    16th April 2023 @ 08:31 AM
    Join Date
    08 Jul 2013
    Location
    Fateh Jang
    Gender
    Male
    Posts
    2,313
    Threads
    92
    Credits
    1,717
    Thanked
    184

    Default

    who is the writer

Similar Threads

  1. Replies: 4
    Last Post: 1st October 2013, 12:49 PM
  2. Replies: 6
    Last Post: 11th August 2011, 04:38 PM
  3. Replies: 12
    Last Post: 20th June 2011, 03:57 PM
  4. Replies: 6
    Last Post: 15th January 2010, 06:23 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •